اچھی فلم اچھی کہانی سے بنتی ہے، آئٹم سانگ سے نہیں!

ایک طویل عرصے کے بعد پاکستانی فلمی صنعت کچھ اس قابل ہوئی ہے کہ وہ سنیما گھروں کو یکے بعد دیگرے فلمیں فراہم کرنے میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی کا ذکر اب کیا کیا جائے کہ غیر ملکی فلموں کے ہجوم میں ہم اکا دکا فلمیں ہی ریلیز کرپاتے تھے اور اُن کا بھی جو حال ہوتا تھا اُن کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ لیکن اب کچھ عرصے سے اس رحجان میں تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی فلمیں کافی طویل عرصے بعد ایک تسلسل کے ساتھ سینما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کی جارہی ہیں اور کچھ اس تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے تکمیل کے مختلف مراحل سے گزر رہی ہیں۔پاکستانی فلمی شائقین اور فلمی صنعت سے وابستہ شخصیات، پاکستانی فلمی صنعت میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کو پاکستانی فلمی صنعت کی بقاء سے تعبیر کر رہے ہیں۔ لیکن بعض صاحبِ فہم شخصیات اور جامعات میں شعبہ میڈیا آرٹ اور فلم سے وابستہ اساتذہ، پاکستانی فلمی صنعت کی موجودہ سمت سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور ان فلموں کو حقیقی فلم سے بہت دور قرار دے رہے ہیں۔ شاید اس کی بنیادی وجہ محض کاروباری مقاصد کی خاطر فلم کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔ یہ اک تسلیم شدہ بات ہے کہ فلم اک آرٹ ہے اور اس کے کچھ اصول ہیں۔ اس بات پر سب متفق ہیں۔ لیکن شاید فلم اور فلمسازوں کے درمیان کاروباری مقاصد حائل ہو رہے ہیں۔ کیونکہ اک طویل عرصے سے پاکستان میں صرف ایسی فلموں کو نمائش جارہی ہیں جن میں پیار محبت، مار ڈھار، دیومالائی ہیرو اور آئٹم نمبرز کے علاوہ کچھ نہیں پایا جاتا۔ مسلسل ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر پاکستانی شائقین کے فلمی ذوق میں اس حد تک بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ اب وہ ان موضوعات سے ہٹ کر بنائی جانے والی فلموں کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ کسی ایسی فلم کو سنیما جا کر دیکھنے کو ترجیح نہیں دیتے، جس میں نامور ہیرو، ہیروئن نے کام نہ کیا ہو یا جس میں ایک دو آئٹم نمبرز موجود نہ ہوں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ موجودہ فلم اس بات کو مدنظر رکھ کر بنائی جارہی ہیں کہ فلم کی کہانی اور موضوع فلم پر کسی صورت کوئی اثر نہیں ڈالے۔ فلم کو اثر انداز بنانا ہے تو اس میں آئٹم نمبر ڈال دیں۔ یعنی اک کامیاب فلم کے نسخہ میں صرف آئٹم نمبر اور نامور ہیرو، ہیروین شامل ہے۔ چاہے فلم میں ان کی اداکاری صفر ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان فلمی صنعت کے احیاء میں شائقین کو اپنا اہم کردار کا ادراک کرتے ہوئے تمام ایسی فلموں سے دوری اختیار کرنی ہوگی جو انہیں محض آئٹم نمبر کے بہانے سنیما کا رخ کرنے کی ترغیب دی رہی ہیں۔ کیونکہ ایسی فلمیں اگچہ باکس آفس پر کامیابی کے جھنڈے تو ضرور گاڑ دیتی ہیں مگر نہ تو شائقین کو کسی سماجی رویہ یا مسائل کے آگاہی میں رہنمائی فراہم کرسکتی ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی حل ان کے پاس ہوتا ہے۔ ایسی فلموں کے موضوع اتنہائی سطحی ہوتے ہیں جس کے سبب یہ فلمیں شائقین پر کسی طور بھی اپنا سحر طاری کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
ایسی فلموں کے برعکس کچھ فلمیں دیکھنے والوں کے ذہن و دل پر اک ناقابل ِفراموش اثر چھوڑ دیتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس فلم کا موضوع ہوتا ہے۔ موضوع فلم کی کہانی اور کرداروں میں گہرائی پیدا کرتا ہے اور اسی سبب شائقین اس فلم کے کرداروں کیساتھ ذہنی ہم آہنگی قائم کرنے میں اس حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ فلم دیکھتے وقت فلمی کردار کے تجربے کو خود محسوس کرسکتے ہیں۔ اس طرز کی فلمیں کسی مخصوص سماجی مسئلے پر اپنے دیکھنے والے کی سوچ و فکر میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہیں اور سماج میں موجود کسی مسئلے پر صدیوں پرانی قائم شدہ اجتماعی سوچ میں تغیر پیدا کرکے اس کے حل کی جانب پہلا قدم بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ فلم دیگر فنون لطیفہ کی مانند، ان تمام موضوعات کو زیرِ بحث لانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے جن سے معاشرہ نظریں چراتا ہے۔
آج کل بھی کچھ اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا حالیہ نمائش کے لئے پیش کی جانے والی پاکستانی فلموں مور اور شاہ کو ہے۔ دونوں ہی فلمیں موضوع کے اعتبار سے انتہائی مختلف معلوم ہورہی ہیں اور فلمی حلقوں میں بھی ان فلموں کی انتہائی تعریف کی جارہی ہے۔ لیکن ان دونوں فلموں کے دوسری فلموں کے مقابلے میں سینما میں کم شوز مقرر کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں فلمی صنعت کی حقیقی بحالی کے لئے شائقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ایسی فلمیں دیکھنے کے لئے سنیما گھروں کا رخ کرکے سینما مالکان اور فلم ڈسٹری بیوٹرز کو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ وہ منافع کے بجائے، معیاری فلموں کو زیادہ شوز دیں تاکہ لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ بلا جھجھک سنیما گھروں کا رخ کریں۔ اس سے سینما میں فلم دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوگا اور صیحح معنوں میں پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی بھی ہوپائے گی۔
Similar Threads:
Bookmarks