!!!اکتفا۔۔۔۔۔
کہا اس نے
دسمبر صرف جدائی ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس ایک اور ماضی کی گپھا میں یوں ڈوب جاتا ہے
کہ جیسے بھٹکا ہوا تھکا ماندہ کوئی مسافر
منزل پر پہنچ کر ہمت ہار دیتا ہے
!جیون وار دیتا ہے۔۔۔
کہا میں نے
بچھڑنا جس کو ہوتا ہے وہ جدا ہو ہی جاتا ہے
بناءجانے بنا ءسوچے ،بناءسمجھے بناءدیکھے
!موسم کوئی بھی ہو پھر رت کیسی ہی سہانی ہو۔۔
ساون کی بوچھاڑیں یاہوں اشکوں کی باراتیں
سمے کیسا ہی خنجر خیز نوکیلے دھارے پر بہتا ہو
یا کہ چین کا نغمہ راوی نے بکھیرا ہو
ماہ وسال کی گردش جب آنی ہو آتی ہے
کہ قافلے ہر حال میں گردش میں رہتے ہیں
!پہاڑ و دامنِ صحرا انھیں کا دم بھرتے ہیں۔۔۔
ملن کی رت کوئی ہو ہمیشہ بھول جاتی ہے
جدائی کی اذیت ہر لمحہ ستاتی ہے،یہ فطرتِ انسانی ہے
!بدلی نہیں جاتی۔۔
!سنو۔۔
بہاروں میں بھی سبز شاخیں سوکھ جاتی ہیں
اور خزاں ہوتوبھی ہری کھیتیاں لہلہاتی ہیں
فرق اس سے نہیں پڑتا
کہ دن کیا ہے ماہ و سال نے کیا نام اوڑھا ہے
کہاں پہ کون بچھڑا ہے کہاں پہ کس نے آ کے ساتھ چھوڑا ہے۔۔۔!
دسمبر پر ہی صرف اکتفا کیوںہے۔۔؟؟؟
ادھوری خواہش ماہ و سال کی قیدی نہیں ہوتی
جدائی کی خلش سمے کے دائروں کی عادی نہیں ہوتی
!بچھڑنے کے ذکر کو چھوڑو۔۔
ملن کو یاد رکھوتم
کہا جس نے دسمبر صرف جدائی ہے
اسے کہنا نیا اک باب بھی پھر اس کے بعد کھلتا ہے
!دسمبر ہی یوں تو پھر نویدِ ابتدا ءبھی ہے۔
!!دسمبر پر ہی اکتفا کیوں صرف۔
!!!دسمبر ہی انتہا کیوں صرف۔۔۔۔
مامن مرزا
Similar Threads:
Bookmarks