
مومل نور
خواتین ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جس کے بغیر کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی نا ممکن ہے ۔ اسلام میں خواتین کو بہت اہمیت دی گئی ہے ۔ ان کو جائز حقوق فراہم کئے گئے ہیں ، زمانہ قدیم میں عورتوں پر جو ظلم ڈھائے جاتے تھے‘ ان کی مثال نہیں ملتی ۔ لوگ جاہلیت کی بناء پر عورتوں پر سخت تشدد کرتے تھے ۔ انہیں ان کے حقوق سے محروم کرتے حتیٰ کہ اسلام سے پہلے تو لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ۔ پھر اسلام نے مرد کو عورتوں کی اہمیت سے واقف کروایا ، ان کے حقوق سے متعارف کروایا اور عورت کو حساس ترین مخلوق قرار دیا ۔ دین ِ اسلام کے علاوہ باقی مذاہب میں بھی عورت کو عزت کا مقام حاصل ہے لیکن ان سب کے باوجود دنیا میں خواتین کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو اسے ہونی چاہئے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے‘ خواتین کو بھی بہت سی مشکلات درپیش ہیں ۔ انہی مسائل کی بدولت خواتین ذہنی دبائو کا شکار رہتی ہیں ۔ وہ اس ڈپریشن کی وجہ سے زندگی کے باقی معاملات پر توجہ نہیں دے سکتیں اور بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔ خواتین کو بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا ہے اور پاکستانی معاشرہ اور اس کی ثقافت جہاں خواتین کو مذہب کے نام پر آزادی سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے خواتین کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف اسے قانونی سطح پر لڑنا پڑتا ہے اور دوسری طرف اپنے معاشرے کے لوگوں سے ۔ لیکن جیسے جیسے دنیا اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے ‘ لوگوں اور خاص طور پر خواتین میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ پھر اسی جذبے کی بدولت عورتوں نے اپنے حق کیلئے لڑنا شروع کیا اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کیخلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ۔ اس کے نتیجے میں بہت سے قوانین بنے جو عورتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔خواتین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے خواتین کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے ، یہ دن 8مارچ کو پوری دنیا میں جو ش وخروش سے منایا جاتا ہے ۔ اس دن بہت سے نئے اور اہم منصوبے تشکیل دیے جاتے ہیں جن سے عورت کے مقام کو اور مضبوط بنایا جاتا ہے اور عہد کیا جاتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی عورت پر ظلم ڈھایا جائیگا‘ اس کیخلاف بین الاقوامی سطح پر مل کر آواز اٹھائی جائیگی ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ۔ اسے زندگی کے ہر رشتے میں مسائل برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم یہ ہیکہ مرد کو عورت پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ پہلے اسے کم تری کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ شادی کے بعد اسے شوہر کے ظلم سہنے پڑتے ہیں۔ خواتین کو ہمارے معاشرے میں اسلام سے ملنے والے وراثتی حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین کو جنسی و جسمانی تشدد کے مسائل درپیش آتے ہیں ۔ پہلے خواتین کو تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا تھا جبکہ پڑھی لکھی خواتین معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن پسماندہ ذہنیت کے لوگ خواتین کی تعلیم کی پر زور مخالفت کرتے ہیں جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔‘‘ آج بھی دیہاتی طبقہ لڑکیوں کو حصول تعلیم کی اجازت نہیں دیتا ۔ ہمارے ملک میں شرح خواندگی بہت کم ہے اس کی اہم وجہ تعلیم نسواں پر عدم توجہ ہے۔ماضی میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ تھی ۔ پھر زمانے کی ترقی اور خواتین کی حق کی آواز کے ساتھ بہت سی یونیورسٹیوں نے انہیں یہ حق دیا اور باقی ممالک نے اس پر عمل کیا ۔ اسی طرح پہلے عورت کو بس گھریلو کام کاج کے لائق سمجھا جاتا تھا ، انہیں ملازمت کے لائق نہیں سمجھا جاتا تھا مگر آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہیں ماننا پڑا کہ عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نام منوا رہی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے ۔ بہت سے اہم مصنفین نے خواتین کے حقوق پر کتب شائع کی ہیں جن میں خواتین کو ان کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کیا گیا ہے اور ان میں خواتین کو در پیش ہر مسئلے پر بحث کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ خواتین کے مسائل اور پریشانیاں حل کرنے کیلئے خواتین کی بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں جو عورتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ان کیلئے عالمی سطح پر آواز اٹھاتی ہیں ۔ آج دنیا میں عورت نے اپنی مسلسل کوششوں سے کافی حد تک اہمیت کا مقام حاصل کر لیا ہے لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ امید ہے خواتین کے ان مسائل پر مستقبل قریب میں اہم اقدامات کئے جائیں گے ۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks