ایک بڑے آدمی کی کہانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند بڑے آدمی ہیں۔ ماہرطبیعات ہیں اور اپنے میدان میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ انہیں انیس سو اٹھانوے میں چاغی کی اس جگہ کا نگران بنایاگیا تھا جہاں پاکستان نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کرنا تھا۔ان کے کریڈٹ پر پاکستان کے میزائل پروگرام کی سربراہی بھی ہے۔ ان کی سربراہی میں پاکستان نے کئی قسم کے میزائل بنائے اور اس ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کی کہ اب اگر ہم چاہیں تو اپنا خلائی پروگرام بھی شروع کرسکتے ہیں۔ ہر سرکاری ملازم کی طرح ایک دن ڈاکٹر صاحب کو بھی ریٹائر ہونا پڑا اور وہ گھر آن بیٹھے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ تو گوارا کرلی مگر گھر بیٹھنا قبول نہیں کرسکے۔ گھر سے باہر نکلنے کی جو راہ انہیں سوجھی وہ سیدھی بلوچستان میں ریکو ڈک کے اس مقام تک جاتی تھی جہاں تانبے اور سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جیسے ہی انہوں نے اس راہ پر قدم رکھا، اس کمپنی پر زندگی تنگ ہوتی گئی جو کئی ملین ڈالر خرچ کرکے اس مقام سے تانبا نکالنا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے جنوری دوہزار گیارہ میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ اگر پاکستان خود ریکوڈک میں کان کنی کرے گا تو اسے دو ارب ڈالر سالانہ ملیں گے۔ دوسال بعد انہوں نے بلوچستان کے گورنر ذوالفقار مگسی کو بتایا کہ بس ریکو ڈک پر آج کل میں کام شروع ہونے والا ہے اور ہر سال چار سو اکیس ملین ڈالر کا تانبا نکال کر بیچا جائے گا۔ دوسال اور گزر گئے، تانبا نکلا نہ سونا البتہ ڈاکٹر صاحب سندھ کی طرف نکل گئے۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ سندھ کے صحراء تھر میں دبے کوئلے کو باہر نکالے بغیر وہ زمین میں ہی جلا کر بھسم کردینے کا کرتب دکھائیں گے، کوئلے کے بھسم ہونے سے جو گیس نکلے گی اس سے وہ ایک بجلی گھر چلائیں گے یوں پاکستان کے پاس اتنی بجلی ہو گی کہ وہ چاہے تو دونوں ہاتھوں سے لٹاتا پھرے۔ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے اس کرتب کے لیے اربوں روپے لگا دیے لیکن بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر کوئلہ بھسم نہ ہوسکا، تو ظاہر ہے گیس کیسے نکلتی۔ کوئلے سے گیس اور گیس سے بجلی نکالنے کے چکر میں بھی کوئی چار سال نکل گئے، ڈاکٹر صاحب پھرتے پھراتے چنیوٹ آن پہنچے۔ چنیوٹ میں پہلے سے معلوم شدہ خام لوہے کے ذخائر میں سے انہوں نے تانبا اور پھر سونا نکالا۔ ان کی تحقیق کے مطابق چنیوٹ شہر کے نیچے بہت کچھ ہے۔ بس اتنا کرنا ہے کہ چنیوٹ شہرکو یہی کوئی پچاس ساٹھ میل آگے پیچھے کرکے لوہا، تانبا، سونا اور پتا نہیں کیا کیا نکالا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند بھی ہم جیسے ہی ہیں، یعنی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی بات سنی، بڑے بھیا کو بتائی اور پھر ساری دنیا کو بتا دی۔ اب انہیں یہ کون بتائے کہ چنیوٹ کے نیچے پڑے لوہے کے ذخائر اتنے گہرے ہیں کہ دنیا کہ کوئی کمپنی انہیں نکالنے کی حماقت نہیں کرے گی۔ جس سونے کی وہ بات کرتے ہیں وہ اتنا کم ہے کہ بس بات ہی چھوڑیں۔ ایک آدم خور شیر کے دانت میں آدھا گرام سونا پھنسا بھی ہو تو عقلمندی کا تقاضا ہے کہ اسے پھنسا ہی رہنے دیں۔ خیر چھوڑیں جی عقلمندوں کو آخر ڈاکٹر ثمرمبارک مند سائنس دان ہے کوئی طریقہ نکال ہی لیں گے۔ اور کچھ نہیں تو کوئی اچھا سا خواب ہی دکھا دیں گے۔ (اختتام
Similar Threads:
Bookmarks