اقبا ل راہی
حضرت پرُنم ؔ الٰہ آبادی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔زود گوئی پر بھی انہیں ملکہ حاصل تھا ان کا نعتیہ کلام مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اور اردو زبان سمجھی اور بولی جاتی ہے ۔وہاں محترم پرُنم کا نام اورکلام بڑی تابناکی سے گونج رہا ہے ۔ان کے کلام کو یکجا کرکے شائع کرنا ایک کٹھن کام تھا مگر اللہ نے ان کے ایک شاگرد اقبال پیام ؔکو یہ توفیق دی ۔ ہمارے ہاں ایسی مثالیں بہت کم ہیں ،اقبال پیامؔ بجاطور پر مبارکباد کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔پرُنمؔ الٰہ آبادی کے ساتھ ایک سفر مجھے اب تک یاد ہے ۔دورِ ایوب میں ملک خدابخش بچہ نے جیکب آباد میں ایک مشاعرہ کرایا وہ ہمارا ابتدائی دور تھا ۔ہم اُستاد احسان دانش کے ہمراہ گئے۔ اس مشاعرے کی صدارت اُستاد قمر جلالوی نے کی یہ ہمارا پہلا اور اُستاد قمر جلالوی کا آخری مشاعرہ تھا ۔یہاں پُرنمؔ الٰہ آبادی نے اپنا کلام سناکر حاضرین کے دل موہ لیے اس مشاعرے کے بعد پُرنمؔ صاحب سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں۔وہ پیسہ اخبار میں افضل دواخانے میں آکر بیٹھتے تھے وہاں حکیم فرقان صاحب اور دیگر دوستوں سے ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی ۔اتوار کو پرُنم ؔصاحب اپنے کمرے میں ایک خاص محفل برپا کرتے تھے، جس میں چند شاعر دوست اپنا کلام سناتے تھے اور لنگر بھی تناول فرماتے تھے ۔کبھی کبھی دہلی مسلم ہوٹل میں مقیم کھتک مہاراج کے کمرے میں ملاقات ہوتی تھی ،پھر پرنم صاحب کراچی چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعدکراچی سے واپسی پر ان کی طبیعت مضمحل رہنے لگی ۔ آخر29جون 2009 ء کوادبی افق پر جگمگانے والایہ ماہتاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا،مگروہ اپنے کلام کی صورت میں آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہے اور جب تک دنیا قائم ہے یہ نام غالب ،مہر، مومن، داغ، جگر ،فراق اور احسان دانش کی طرح زندہ و پائندہ رہے گا۔ ٭…٭…٭



Similar Threads: