عبدالحفیظ ظفر
اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کو اعلیٰ پایے کے موسیقاروں کی خدمات حاصل رہیں۔ جنہوں نے اپنی لازوال دھنوں سے پورے برصغیر میںایک عرصے تک دھوم مچائے رکھی۔ یہاں کے لاجواب سنگیت کاروں کی فنی عظمت کا اعتراف بھارت میں بھی کیا گیا۔ ہمارے ہاں خواجہ خورشید انور، بابا جی اے چشتی، صفدر حسین، نثار بزمی، ناشاد، روبن گھوش، ماسٹر عبداللہ،ماسٹر عنایت حسین، رشید عطرے اور ایم اشرف جیسے موسیقاروں نے ایسی ایسی دھنیں تخلیق کیں جو آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ جن فلموں کی انہوں نے موسیقی ترتیب دی۔ ان کی کامیابی میں ان کے شاندار سنگیت نے بھی اہم کردار ادا کیا اور پھر کئی گلوکار اور گلوکارائیں بھی شہرت کے آسمان پر پہنچیں لیکن دیگر دوسرے شعبوںکی طرح ہماری فلمی صنعت کا بھی یہ المیہ رہا کہ یہاں بھی کچھ فنکاروں کی وہ قدرومنزلت نہیں کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ موسیقی کے میدان میں یہ بات خلیل احمد کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جنہوں نے کم کام کیا لیکن شاندار کام کیا۔ انہوں نے باکمال دھنیں بنائیں اور فلموںکی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1934ء میں گورکھپور (یوپی) میںپیدا ہونے والے خلیل احمد کے والد فوج میںمیجر تھے۔ انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور ڈھاکہ سے ایم ایس سی کیا۔ ہماری فلمی صنعت کے بارے میں ہمیشہ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس فلمی صنعت میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے اوراس پر جاہلوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، حالانکہ یہ بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت میں انور کمال پاشا، خواجہ خورشید انور، مسعودپرویز، ڈبلیو زیڈ احمد، سنتوش کمار، وحید مراد، مصطفی قریشی،مسعود اختر، شجاعت ہاشمی سمیت کئی فنکار ایسے تھے اور ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ خلیل احمد کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتاہے۔ خلیل احمد کو شروع سے ہی موسیقی سے رغبت تھی۔ انہوں نے کراچی میں پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں ملازمت کی۔ یہ ملازمت چھوڑ کر وہ ریڈیو سٹیشن سے وابستہ ہوگئے۔ وہاں انہیں مہدی ظہیر جیسا کمپوزر استاد کی شکل میں مل گیا۔ مہدی ظہیر نے انہیں فن موسیقی کے اسرار و رموز سکھائے۔ پیہم جدوجہد اور کامل یکسوئی کی بدولت وہ ایک کامیاب موسیقار بن گئے۔ 1952ء میں کیریکٹر ایکٹر آزاد نے اپنی فلم ’’طوفان‘‘ کی موسیقی کیلئے خلیل احمد کو منتخب کیا۔ یہ فلم تو نہ بن سکی البتہ انہیںفلم ’’آنچل‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع مل گیا جسے ان کی خوش نصیبی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس فلم میںحمایت علی شاعر کی مشہور نظم ’’ان کہی‘‘ کے چند بند سلیم رضا اور ناہید نیازی کی آواز میں الگ الگ ریکارڈ کیے۔ اس نظم کے بول تھے ’’تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم‘‘۔’’آنچل‘‘ کے باقی گیت بھی ہٹ ہوئے۔ خاص طور پر اس گیت نے برصغیر میں دھوم مچا دی اور مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔’’کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو‘‘ اس کے بعد 1963ء میں انہوں نے ’’قانون‘‘ اور ’’دامن‘‘ کا سنگیت دیا۔ ان فلموںکے گیت نگار بھی حمایت علی شاعر تھے۔ حمایت علی شاعر کے ساتھ خلیل احمد کی خوب ذہنی ہم آہنگی تھی اور ان دونوں نے یادگار فلمی گیت تخلیق کیے۔ اس کے بعد ’’خاموش رہو‘‘ ریلیز ہوئی جس کا شمار پاکستان کی بہترین فلموں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم کے ہدایتکار جمیل اختر تھے جبکہ مکالمہ نگار ریاض شاہد تھے۔ خلیل احمد نے اس شاندار فلم کی لاجواب موسیقی ترتیب دی اور اس فلم کے کئی نغمات سپرہٹ ہوئے۔ حبیب جالب کی مشہور زمانہ نظم’’میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا‘‘ کو بھی خلیل احمد نے موسیقی کے قالب میں ڈھالا۔ مالا کی آواز میں اس خوبصورت گیت کی دھن بھی خلیل احمد نے مرتب کی جس نے شائقین فلم میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔’’میں نے تو پریت نبھائی سانوریارے نکلا تو ہرجائی‘‘۔ 1965ء میں خلیل احمد کی ایک اور یادگار فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’کنیز‘‘۔ حسن طارق کی اس فلم میں صبیحہ ، محمد علی، وحید مراد اور طالش نے اہم کردار ادا کیے تھے۔ ’’کنیز‘‘ کی موسیقی کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔ مالا اور احمد رشدی کے اس دوگانے نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ ’’جب رات ڈھلی، تم یاد آئے‘‘۔ ان کی فلم ’’مجاہد‘‘ کا قومی گیت ’’ساتھیو، مجاہدو، جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘بہت پسند کیا گیا۔1965ء کی جنگ میں ریڈیو پاکستان نے اس قومی گیت کو جنگی نغمے کی حیثیت سے باربار نشر کیا۔1966ء بھی خلیل احمد کیلئے کامیابیوں کے پھول لے کرآیا۔ انکی تین فلموں کا سنگیت بہت مقبول ہوا۔ یہ فلمیں تھیں ’’تصویر، میرے محبوب اور لوری‘‘۔ ’’تصویر‘‘ میں مہدی حسن کا گایا ہوا یہ نغمہ مقبولیت کی تمام حدیں پار کر گیا۔ ’’اے جان وفا دل میں تری یادرہے گی‘‘۔ ’’لوری‘‘ خلیل احمد کی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس فلم کے سنگیت میں خلیل احمد نے خون جگر دیا ہے۔ حمایت علی شاعر کی غزل ’’خداوند! یہ کیسی آگ سی لگتی ہے سینے میں‘‘ مہدی حسن نے اس قدر فنی مہارت سے گائی کہ بے اختیار منہ سے واہ نکلتی ہے۔ حمایت علی شاعر نے بھی شاید اس غزل میں اپنے فن کو نچوڑ دیا ہے۔ اور پھر خلیل احمد کی موسیقی سونے پہ سہاگہ ثابت ہوئی۔ لوری کے باقی گیت بھی باکمال تھے۔ مثال کے طور پر ’’ہوا نے چپکے سے کہہ دیا کیا (مالا) میں خوشی سے کیوں نہ گائوں (مجیب عالم) اس کے علاوہ میڈم نور جہاں اور ثریا حیدر آبادی نے الگ الگ لوری گائی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس کے بول تھے۔ ’’چھن چھن چھناناناچھن اڑن کھٹولے میں امی کا دلارا، ابو جی کا پیارا‘‘ ’’لوری‘‘ میں بچوں پر ایک مزاحیہ گیت بھی عکسبند کیا گیا اور یہ مزاحیہ گیت بھی بہت مقبول ہوا۔ اس کے بول تھے۔ ’’تالی بجے بھئی تالی بجے‘‘۔ خلیل احمد کو المیہ گانوں کی دھنیں بنانے میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ ایک اوریجنل اوراختراع پسند موسیقار تھے۔ ان کی مشہور فلموں میں ’’دامن، قانون، آنچل، جھلک، انسپکٹر، چھوٹی سی دنیا، کنیز، میرے محبوب، درد دل، لوری، تصویر، داستان، بزدل، معصوم اور آج اور کل‘‘ شامل ہیں۔ وہ برق رفتاری سے اپنا کام کرتے تھے۔ انہوں نے فلمی موسیقی کو نیا حسن عطا کیا۔ وہ سامعین کے مزاج سے بخوبی آشنا تھے اور ان کے مزاج کے مطابق دھنیں ترتیب دیتے تھے۔ خلیل احمد نے ٹی وی پر بھی بہت اعلیٰ میوزک دیا۔ ان کے نغمات نے زبردست شہرت حاصل کی۔ ان کے مندرجہ ذیل گیت اور غزلیں ملاحظہ فرمائیں۔ -1چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ -2 ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے -3 انشاجی اٹھو اب کوچ کرو -4 میں نے پیروں میں پائل توباندھی نہ تھی -5 موسم بدلا رت گدرائی انہوں نے پی ٹی وی ایوارڈ بھی حاصل کیا اور 32 سالہ کیریر میں 33 فلموں کا میوزک دیا۔ ان کا بچوں کامشہور ٹی وی پروگرام ’’ہم کلیاں ہم تارے‘‘ تھا۔ جس میں ان کے ساتھ نیئرہ نور اور طاہرہ سید بھی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔ خلیل احمد کچھ دیر کیلئے فلمی موسیقی سے الگ ہوگئے لیکن 1975ء میں انہوں نے ’’معصوم‘‘ کی موسیقی دی اور پھر 1976ء میں ایس سلیمان کی دوکامیاب فلموں ’’طلاق‘‘ اور ’’آج اور کل‘‘ کا میوزک دیا۔ ان دونوں فلموں کے گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ خاص طور پر فلم ’’طلاق‘‘ کے اس گیت کو عوام کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔’’قدموں میں ترے جینا مرنا‘‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خلیل احمد نے اپنے ہی گیت ’’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ کی دھن اس نغمے کیلئے بھی استعمال کی۔ اب ذرا بات ہو جائے ان قومی گیتوں کی جن کی شاہکار دھنیں خلیل احمد نے تخلیق کیں۔ -1 ہمارا پرچم، پیارا پرچم -2 وطن کی مٹی گواہ رہنا -3 پاکستان پاکستان، اپنا پیارا پاکستان 22 جولائی 1997ء کو یہ نادر روزگار سنگیت کار عالم جاوداں کو سدھار گیا۔ موسیقی کے میدان میں انہوں نے جو کارہائے نمایاںسرانجام دیئے وہ زندہ رہیں گے۔ ٭…٭…٭
Similar Threads:
Bookmarks