google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 10 of 10

    Thread: بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے

    Threaded View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے



      محمد علی کو سندھ مدرستہ الاسلام میں گجراتی کی چوتھی جماعت میں داخل کرایا گیاتو ان کی عمر تقریباً دس برس تھی۔ سکول کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سکول میں داخل کئے جانے والے لڑکوں میں ان کا نمبر 114تھا۔ سکول کی تبدیلی سے محمد علی کے تعلیم کی جانب رجحان میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور وہ بدستور سکول میں تعلیم کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے بجائے کھیل کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ تقریباً انہی دنوں اتفاق سے میرے والد کی اکلوتی بہن بمبئی سے کراچی آئی ہوئی تھیں۔ مان بائی کی شادی بمبئی میں ہوئی تھی اور وہ وہاں اپنے خاوند کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ ہم انہیں مان بائی پوفی (پھپھی) کہا کرتے تھے۔ وہ نہایت زندہ دل، شگفتہ مزاج اور پرمزاح طبیعت کی مالکہ تھیں۔ یہی نہیں‘ وہ درسی تعلیم میں بھی ذہین تھیں۔ میرے والد اپنی بہن سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اور مان بائی بھی اپنے سب سے چھوٹے بھائی جناح پر جان چھڑکتی تھیں۔ دونوں کے درمیان بے حد محبت تھی اور یہ ان کے آخری دنوں تک بدستور قائم رہی۔ جب میں قائداعظم کے ساتھ اپنی چالیس سالہ رفاقت پر نظرڈالتی ہوں تو مجھے بے ساختہ خلوص اور محبت کا وہ رشتہ یاد آجاتا ہے جو میرے والد اورا ن کی بہن کے درمیان قائم تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کئی برسوں بعد مان بائی اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے لیے آئیں تو وہ اکثر ہمارے گھر آیاکرتی تھیں۔ وہ قصے کہانیاں سنانے میں بڑی ماہر تھیں۔ مجھے آج تک حیرت ہے کہ وہ سینکڑوں کہانیاں آخر کس طرح زبانی یاد رکھا کرتی ہوں گی۔ وہ کبھی سکول نہیں گئی تھیں۔ اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ کہانیاں کتابوںوغیرہ سے پڑھ لیتی ہوں۔ غروبِ آفتاب کے بعد مان بائی پوفی میری بہنوں اور میرے چچا زاد بھائیوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیتیں۔ اور ہماری توجہ کا مرکز بن جایا کرتیں اور ہم رات کے وقت مبہوت اور مسحور ہوکر ان کی کہانیاں سنا کرتے۔ وہ پریوں اور اڑنے والے قالینوں کی کہانیاں سناتے‘ جنوں اور بلائوں کے قصے ہوتے‘ اور یہ سب ہمارے ننھے ذہنوں کے لیے نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے۔ یہ کہانیاں ہماری دنیا سے دور آباد کسی دوسرے ہی عالم کی معلوم ہوتیں۔ ایک روز میرے والد، والدہ اور مان بائی پوفی سرجوڑ کر بیٹھے کہ آخر محمدعلی کا کیا کیا جائے جنہوں نے تعلیم میں دلچسپی لینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ ان کی عمر دس برس ہوچکی تھی اور ابھی تک انہوں نے گجراتی کی چوتھی جماعت بھی پاس نہ کی تھی۔ مان بائی پوفی نے تجویز پیش کی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ بمبئی لے جائیں گی‘ امید ہے ماحول کی تبدیلی سے ان کا دل پڑھائی کی جانب مائل ہوجائے گا۔ میری والدہ کو اس تجویز پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی اور انہوں نے بادلِ نخواستہ اس کی اجازت دے دی۔ اس طرح محمد علی مان بائی پوفی کے ہمراہ بمبئی چلے گئے۔ محمد علی بمبئی کے انجمن الاسلام سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ کچھ عرصے تک محمد علی نے سنجیدگی سے اپنی تعلیم پر توجہ دی۔ چناں چہ انہوں نے گجراتی کی چوتھی جماعت پاس کرلی۔ اس طرح وہ انگریزی کی پہلی جماعت میں داخلہ لینے کے اہل ہوگئے۔ اِدھر والدہ کا اپنے چہیتے بیٹے کی جدائی میں برا حال تھا۔ بالآخر ماں کی محبت باپ کی منطق پر غالب آگئی اور محمد علی بمبئی سے کراچی واپس آگئے۔ میرے والد نے انہیں ایک مرتبہ پھر سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل کرا دیا۔سکول کے رجسٹر کے مطابق اس مرتبہ ان کا داخلہ نمبر 178تھا۔ 23ستمبر 1887ء تاریخِ داخلہ تھی۔ گذشتہ تعلیمی ادارے کے خانے میں انجمن الاسلام سکول بمبئی کا نام درج کروایا گیا۔ محمد علی کو اب تک جنون کی حد تک گھڑسواری کا شوق ہوچکا تھا۔میرے والد کے پاس سواری کے لیے کئی بگھیاں تھیں جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سواری کا ایک رئیسانہ ذریعہ تھیں۔ موٹرکاروں کا دور ابھی دور تھا۔میرے والد کے اصطبل میں کئی شاندار گھوڑے تھے۔ محمد علی نے جلد ہی گھڑ سواری سیکھ لی۔ وہ اس کھیل سے بے حد محظوظ ہوتے تھے۔ سکول میں ان کے ایک دوست کریم قاسم ہوا کرتے تھے جو کھارادر ہی کے ایک تاجر کے بیٹے تھے۔ دونوں لڑکے روزانہ ایک ساتھ گھڑ سواری کیا کرتے۔ (محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب’’ میرا بھائی‘‘ سے اقتباس)






      Similar Threads:

    2. The Following 2 Users Say Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Dr Danish (10-03-2017),Moona (02-16-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •