نصرت شبنم
خوابو ں کی حقیقت کیا ہے،خواب انسان کب دیکھتا ہے،خواب کیوں نظر آتے ہیں انسان کی اصل زندگی پر خواب کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں؟بہت سے لوگ تو دوسروں کو یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیںکہ تمھیں تو دن میں بھی خواب دیکھنے کی عادت ہے۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ حالت نیند میں ہمارے ظاہری حواس سو جاتے ہیں جبکہ لاشعورجاگ جاتا ہے اور ہم کو زمان و مکاں کی قید سے آزاد کر کے ماوراء زمان ومکاں کی سیر کرواتا ہے۔رات کو تو سوتے میںخواب آتے ہیںمگر دن میںآنے والے خواب کیسے ہوتے ہیں اور کیوںآتے ہیں؟ علم نفسیات کے مطابق ،ہم میں سے ہر کوئی یا تقریبا ًتمام لوگ مستقل بنیادوں پردن میں خواب دیکھتے ہیں ،تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ تقریباً 96 فیصد بالغان کم از کم ایک باردن میں خواب دیکھتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دن میں دیکھے جانے والے خوابوں میں سے کچھ خواب آپ کے لیے اچھے اور کچھ برے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایک نئی تحقیق بتاتی ہے کہ سوچوں کا بھٹکنا یا دن میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا ہمیشہ اتنا برا نہیں ہوتا ہے بلکہ امریکی محققین کے مطابق دن میں خیالات کا یہاں وہاں بھٹکنا ہماری توجہ کو مرکوز رکھنے میں مدد کرتا ہے۔اگرچہ ماہرین نفسیات کو ہمیشہ سے ہمارے دماغ میں بھٹکنے والے خیالات اور وہم کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رہی ہے۔تاہم ایک تازہ تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دن میں خواب دیکھنا سوچ کومرکوز رکھنے کے لیے برا نہیں ہے بلکہ اس کا ذہنی کارکردگی پر مثبت اثر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ خیالات کا رخ صحیح وقت میں صحیح سمت میں ہونا چاہیے۔ امریکی علم نفسیات کے بانی ولیم جیمس جنھوں نے 1890 میں اس فنکشنل نظریہ کے لیے ڈیٹا فراہم کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ہم دانشورانہ اسباق یاد کرتے ہیں تو بھلکڑ بن جاتے ہیں ایسے میں ہماری توجہ باہر کی چیزوں سے ہٹ جاتی ہے جو ہمیں غیر حاضر دماغ ، بے خبر اور خیالات میں گم ہونے والا بنا دیتی ہے لہٰذا ،خیالی پلاؤ پکانا یا مراقبہ ہمیں اس مقام پر لا پھینکنے کے لیے کافی ہوتا ہے جہاں توجہ کو کنٹرول کرنے میں عارضی چُوک ہماری توجہ کو بیرونی دنیا سے نکال کر اندرونی ذہن کی طرف منتقل کرنے میں قیادت کرتی ہے۔ڈاکٹر ناتھن اسپرینگ جنھوں نے مطالعہ کی قیادت کی ہے، کہتے ہیں کہ عام نقطہ نظر کے مطابق دماغ کا وہ حصہ جسے ڈیفالٹ نیٹ ورک کہا جاتا ہے، اس کا متحرک ہونا توجہ طلب کاموں میں ایک شخص کی خراب کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ نیٹ ورک ہمارے برتاؤ جیسا کہ سوچوں کا بھٹکنا یا دن میں خواب دیکھنے کے ساتھ منسلک ہے۔ماہرین نفسیات نے اس نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سوچا تو یہ ہی جاتا تھا کہ پزل بنانے کے دوران لوگ زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے کیونکہ اس وقت دماغ میںڈیفالٹ نیٹ ورک جوخیالات کوادھر اُدھر بھٹکنے کے ساتھ منسلک ہے نسبتاً کم متحرک ہوتا ہے۔تحقیق کاروں کے بقول ،یہ بات واقعی سادہ معلوم ہوتی ہے کہ آف دی ٹاسک یا ہدف سے ہٹ کر سوچنے سے ہماری توجہ کے مشغول ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے نتائج اس سے برعکس ہیں جو بتاتے ہیں کہ ڈیفالٹ نیٹ ورک کا ملوث ہونا کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔اس مطالعے میں سائنسی شواہد کی روشنی میں ظاہر کیا گیا ہے کہ کبھی کبھی ڈیفالٹ نیٹ ورک توجہ طلب کاموں یا پھر ان کاموں کی انجام دہی میں مدد فراہم کرتا ہے جن میں فوری ردعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈاکٹر ناتھن اسپرینگ نے کہا کہ سیدھی سی بات ہے جوہم سب ہی جانتے ہیں کہ اکثر ماضی کے بعض لمحات پر غور کرنے سے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جب طویل مدت کی یادداشت جو ڈیفالٹ نیٹ ورک میں محفوظ ہوتی ہے آپ کے اس کام کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو جس پر آپ توجہ مرکوز کر رہے ہیں تو اس طرح آپ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔اس تحقیق میں 36 صحت مند رضا کاروں نے وقت کے دباؤ کے تحت چہروں کو پہچاننے اور تصاویر جوڑنے کی کوشش کی یہ چہرے یا تو گمنام تھے یا پھرمشہور شخصیات کے تھے جیسا کہ توقع کی جارہی تھی لوگوں نے ان چہروں کو تیزی کے ساتھ میچ کیا جنھیں وہ پہلے دیکھ چکے تھے جبکہ اس دوران ایم آر آئی کا استعمال کرتے ہوئے ان کے دماغ کا اسکین لیا گیا۔تحقیق کا نتیجہ بہت اہم تھا کہ دماغ کا ڈیفالٹ نیٹ ورک جو بیتی ہوئی باتوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ منسلک ہے چہروں کو پہچاننے میں لوگوں کی مدد کر رہا تھا اورجتنا تیزی سے وہ ٹاسک مکمل کر رہے تھے دماغ کے اس حصے میں زیادہ علاقہ روشن یا متحرک تھا۔انھوں نے کہا کہ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دن میں خواب دیکھنا ہمیشہ برا نہیں ہوتا ہے حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب آپ کام پر پوری توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر جن کاموں میں توجہ اور رفتار دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔بلکہ تحقیق کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ کبھی کبھی دن میں خواب دیکھنے سے رکاوٹ نہیں بلکہ مدد ملتی ہے۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks