Moona (03-13-2016)
طیبہ ضیاء چیمہپاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اور امریکہ میں انصاف کا ترازو بندے کا اسی دنیا میں حساب کتاب کر دیتا ہے۔ پاکستان میں بھیانک سے بھیانک جرم بھی رشوت اور سفارش میں لپیٹ دیا جاتا ہے جبکہ امریکہ کا شہری دنیا کے خواہ کسی بھی گوشے میں جرم کرے، مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ مغرب میں پاکستانیوں کی جھوٹی غیرت اس وقت بیدار ہوتی ہے جب ان کی اولادیں اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہیں اور بیٹیوں کو عزت کے نام پرقتل کروا دیا جاتا ہے یا بہانے سے پاکستان لے جا کر ان کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے۔ اس قسم کے لا تعداد واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں مگر جب مجرم والدین کو ان کی جھوٹی غیرت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے تو ان ممالک کے انصاف کو خراج تحسین پیش کرنا پڑتا ہے۔ کافروں کے ملک میں مکافات عمل اور کیفر کردار نام کی کوئی چیز دیکھنے کو مل جاتی ہے ورنہ مسلمان اپنے مذہب اور ملک کو بدنام کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ اتنے با غیرت تھے تو کافروں کے ملک میں آنے کی ضرورت کیا تھی اور اگر مجبوری انہیں باہر لے ہی آئی تو بالغ اولاد کے ساتھ زبردستی کرنے کے غیر شرعی اقدام کے انجام سے بھی با خبر رہنا چاہئے ۔ پاکستان میں تھوڑی پر گزارا کر لیتے مگر جھوٹی غیرت کا تماشہ تو نہ لگاتے۔ پاکستانیوں کے اپنی بیٹیوں کے ساتھ غیر انسانی رویوں کو مغربی میڈیا غیرت کے نام پر قتل کا شرمناک حوالہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی اولادیں کزن میرج کے خلاف ہیں۔کزنوں کو بہن بھائی سمجھتے ہیں، اس کی ایک وجہ سائنس کی ریسرچ ہے اور دوسری وجہ مغربی ماحول کا اثر ہے لیکن والدین مغرب میں پرورش پانے والی بیٹیوں کی پاکستان جا کر جبراً شادیاں کر دیتے ہیں تا کہ ان کے خاندان کے لڑکوں کو لیگل طریقے سے اپنے پاس باہر بلایا جا سکے اور کاروبار میں مددگار بنایا جا سکے۔ پاکستانی نوجوان نسلوں کا موڈ، غصہ اور ضد اندرون و بیرون ملک مشہور ہے لہٰذا والدین خاندان سے رشتے تلاش کرتے ہیںجو ان کے بچوں کے ساتھ گزارا کر سکیں البتہ یہ بھول جاتے ہیں کہ زبردستی کا یہ گزارا لڑکے کو جیل پہنچا سکتا ہے یا ملک سے نکلوا سکتا ہے۔ چند روز پہلے امریکی اخبار کی زینت بننے والی ایک سٹوری کے مطابق نیویارک کے ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور محمد اجمل چودھری کو ڈسٹرکٹ عدالت نے بیرون ملک غیرت کے نام پر قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی بیٹی آمنہ اجمل کو پاکستان بھیج کر قریبی رشتہ دار سے زبردستی شادی کرانے کی کوشش کی تھی تا کہ خاندانی داماد کو امریکہ بلا سکے۔ اس کی بیٹی اس رشتے پر تیار نہ تھی اور وہ ایک پاکستانی نوجوان کی مدد سے پاکستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ لڑکی کے باپ نے بیٹی کے فرار ہونے کے بعد غصے میں اس کی مدد کرنے والے شخص کے باپ اور بھائی کو قتل کروا دیا۔ لڑکی نے جبراً شادی کی کوشش پر امریکی قونصل خانے سے رابطہ کیا، اس تمام معاملے میں ایک پاکستانی نوجوان نے فرار میں اس کی مدد کی، امریکی شہری ہونے کے ناطے امریکی سفارت خانے کے تعاون سے لڑکی واپس امریکہ پہنچا دی گئی۔ امریکہ پہنچ کر اس نے ماں سے رابطہ رکھا، اس دوران اس کا باپ اپنی لڑکی کو فون پر اس کے مددگار کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ اس کا فون ٹیپ ہو رہا تھا، ادھر پاکستان میں اس نے مددگار نوجوان کے باپ اور بھائی کو قتل کروا دیا اور امریکہ میں غیرت کے نام پر قتل میں ملوث مجرم باپ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا۔ پاکستان میں عینی شاہدین کے مطابق ٹیکسی ڈرائیور کا بھائی اور دیگر رشتہ دارہاتھوں میں بندوقیں لئے مقتولین کے پاس لاشوں کو کریدتے ہوئے دیکھے گئے۔ قتل کے بعد نیویارک میں مقیم ٹیکسی ڈرائیور چودھری اجمل کو گرفتار کر لیا گیا لیکن پاکستان میں اس قتل کے خلاف کسی پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ قتل پاکستان کی زمین پر ہوئے اور ماسٹر مائنڈ کو نیویارک کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ اس طرح کے بے شمار واقعات امریکہ سمیت مغربی دنیا سے آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ یہ غیرت نہیں بلکہ اپنی بے بسی اور ضد اور جھوٹی انا کا انتقام ہے۔ پاکستان میں اثر و رسوخ رکھنے والے قاتل بھی گردنیں اکڑا کر دندناتے پھرتے ہیں لیکن مغرب کا قانون ابھی بے غیرت نہیں ہوا، ان ممالک میں ظالم کو مکافات عمل تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ لڑکے تو قابو نہیں آتے اور اگر وہ مرضی سے شادی کر لیں تو والدین جھوٹی عزت رکھنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ جی منڈا ہے، جوانی اندھی ہوتی ہے، خیر ہے جلد سمجھ جائے گا، پھر ہماری مرضی سے شادی کرائے گا وغیرہ لیکن بیٹی کے معاملے میں قانون کا خوف نہ ہو تو مرضی کی شادی کرنے والی بیٹی کو جھوٹی غیرت کی خاطر امریکہ کے چوراہے پر کھڑا کر کے گولی مار دیں۔ سخت قانون کے باوجود جنونی باپ گھروں کے اندر بیٹی کو زہر دے کر اور کبھی گولی مار کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیتے ہیں اور ساری زندگی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزار تے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کے باپ اور بھائی ملک کےبے غیرت قانون کی وجہ سے آزاد پھرتے ہیں۔
Similar Threads:
Moona (03-13-2016)
Moona (03-13-2016)
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing![]()
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-13-2016)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks