اوباما کی عربوں کو’ٹھنڈا‘ کرنےکی کوششامریکی حکام کا کہنا ہے کہ واضع طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ بیرونی چیلنجز کے دوران اُن کی حفاظت کرے گا۔امریکہ کے صدر براک اوباما نے رواں ہفتے خلیجی ممالک کے رہنماؤں کو کیمپ ڈیوڈ میں مدعو کیا ہے، تاکہ انھیں اس بات کی یقین دہانی کروائی جا سکے کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے دوران بھی امریکہ اپنی اتحادیوں کی سکیورٹی کے وعدوں کی پاسداری کرتا ہے۔اوباما کی جانب سے اس دعوت کا مقصد بھی یہی ہے کہ عرب اتحادیوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے معاہدے سے امریکہ اور اُن کا تاریخی اتحاد کمزور نہیں پڑے گا۔لیکن سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان کی آخری لمحات میں دعوت میں شرکت کے انکار سے واشنگٹن اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی کھل کر سامنے آئی ہے۔وائٹ ہاؤس پر اُن کا عدم اتحاد اُس وقت بڑھا جب صدر اوباما نے بہار عرب کے آغاز پر ہمدردانہ ردعمل کا مظاہرہ کیا اورشام میں جاری لڑائی میں امریکہ کی براہ راست شمولیت نہ کرنے سے وہ ناراض بھی ہے۔اب خطے میں فرقہ ورایت بڑھنے اور سنی اور شیعوں کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فضا میں عرب رہنما ایران کے معاہدے پر اور زیادہ چوکس ہو گئے ہیں۔اُنھیں خدشہ ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں ختم ہونے سے ایران طاقتور ہو گا اور وہ شام، عراق، لبنان اور یمن میں شیعہ ملیشیا کو زیادہ تعاون فراہم کرے گا۔اس لیے انھیں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ ٹھوس ضمانتیں چاہیے۔واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے کہا کہ ’ماضی میں ہم نے زبانی کلامی معاہدے پر گزارہ کیا ہے لیکن میرے خیال میں اب کچھ تحریری طور پر کچھ ہونا چاہیے جو بنیاد اصولوں پر ہو۔‘مشرق وسطیٰ کے امور پر صدر اوباما کے نمائندہ ے روبرٹ میلے نے کہا کہ ’وہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ اُن کی حفاظت کرنے کے لیے ہم موجود ہیں۔‘امریکہ میں ہونے والے اس اجلاس میں خلیجی تعاون کونسل کے چھ ممالک امریکہ کے ساتھ اپنے طویل مدتی سکیورٹی کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر غور کریں گے۔عربوں کے تحفظاتماضی میں ہم نے زبانی کلامی معاہدے پر گزارہ کیا ہے لیکن میرے خیال میں اب کچھ تحریری طور پر کچھ ہونا چاہیے جو بنیاد اصولوں پر ہوامریکی میں یو اے ای کے سفیر
خلیجی تعاون کونسل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر اور عمان شامل ہیں۔لیکن اس اجلاس میں کسی بھی رسمی دفاعی معاہدے کے طے پانے کا امکان نہیں ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ واضع طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ بیرونی چیلنجز کے دوران اُن کی حفاظت کرے گا۔امریکہ ایرانی حملے کو روکنے کے لیے خلیجی ممالک کی جانب سے اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب کی بھی حمایت کرے گا۔امریکہ چاہتا ہے کہ خلیجی ممالک انسدادِ دہشت گردی کے لیے بہتر حکمتِ عملی مرتب کریں اور سائبر اور میری ٹائم سکیورٹی میں تعاون کرنے کے لیے مشترکہ فوجی مشقیں کی جائیں۔کیمپ ڈیوڈ میں صدر اوباما کے مہمان خطے میں اقتدار کی جنگ میں امریکہ کے کردار جانچنا چاہتے ہیںامکان ہے کہ خلیجی ممالک اسحلے کی خریداری کے لیے نئے معاہدے کریں لیکن جدید F-35 لڑاکا جہاز ملنے کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ نے یہ جہاز اسرائیل کو دینے کا وعدہ کیا ہے۔امریکی حکام نے خلیجی ممالک کو کئی جدید ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ خلیجی ممالک کا دفاعی بجٹ 135 ارب ڈالر تک ہے جبکہ ایران کا دفاعی بجٹ 10 سے 17 ارب ڈالر تک ہے۔ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ زیادہ تر عرب رہنما اس اجلاس کے ایجنڈے سے مطمعن نہیں ہیں اور اسی لیے انھوں نے خود شرکت کرنے کے بجائے اپنا نائبین کو بھیجا ہے۔عمان اور متحدہ عرب امارات کے رہنما علالت کے باعث نہیں آئے جبکہ سعودی شاہ سلمان نے بھی شرکت کرنے سے معذرت کی ہے۔امریکی اور سعودی حکام کا اصرار ہے کہ بادشاہ کی عدم شرکت کا مقصد ناراضی کا اظہار کرنا نہیں ہے اور اُن کی جگہ سعودی شہزادہ جو سکیورٹی کے امور کی نگرانی کرتے ہیں، وہ شریک ہو رہے ہیں۔سعودیوں کا کہنا ہے کہ شاہ سلمان یمن میں انسانی بنیادوں پر ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے پر نظر رکھنا چاہتے ہیں جبکہ یمن پر سعودی فضائی حملوں کی وجہ سے اُن پر کافی دباؤ ہے۔اس اجلاس میں یمن اور شام کے تنازعات پر بھی بات ہو گی۔کیمپ ڈیوڈ میں صدر اوباما کے مہمان خطے میں اقتدار کی جنگ میں امریکہ کا کردار جانچنا چاہتے ہیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ امریکہ انھیں نقصان پہنچا کر ایران کے ساتھ مصالحت کر رہا ہے۔امریکی حکام کا اصرار ہے کہ جوہری معاہدہ کسی اور معاملے پر اثرانداز نہیں ہو گا اور اس کے ذریعے ایران کے برے رویے میں تبدیلی آئے گی۔صدر اوباما نے بھی امید ظاہر کی تھی کہ جوہری معاہدے سے ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔اس فرقہ ورانہ لڑائی میں صدر اوباما نے کسی کی فریق کی طرفداری میں کافی احتیاط برتی ہے اور انھوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ عرب ممالک میں داخلی عدم استحکام اُن کے لیے ایران سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔امید ہے کہ اس اجلاس میں بنیادی اہداف اور تعلقات بہتر کرنے میں مدد ملے ضرور ملے گی لیکن پرانے اتحادیوں میں بینادی مسئلے کے حل کا امکام قدرے کم ہے۔میل
Similar Threads:
Bookmarks