
مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کر کے آپ اپنے خوف سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ (1) تذبذب کے بغیر اور دلیرانہ انداز میں وہی کچھ کیجیے جس سے آپ خوف کھاتے ہیں! اپنے ذہن کو یقین دلایئے کہ آپ وہی کچھ کر رہے ہیں جس کے کرنے سے آپ ڈرتے رہے ہیں۔ mبے خوفی اوردلیرانہ انداز میں۔ mپورے عزم اور مضبوط ارادے کے ساتھ۔ mکسی تذبذب یا ہچکچاہٹ کے بغیر۔ mبزدلی سے نہیں، بلکہ جرأت اور بہادری سے۔ mخوف سے خوف کھائے بغیر۔ mفاتحانہ انداز میں، تحکمانہ انداز میں۔ mسب سے پہلے متعلقہ خوف کا تصور کیجیے۔ mپھر اس پر مزید زور دیجیے اور بلند آواز میں کہئے۔ mمیں تم سے نجات حاصل کرنے والا ہوں۔ mپھرمزید تحکمانہ اور دلیرانہ انداز اپنایئے، خوف پر پوری توجہ دیجیے۔ mاور پھر مضبوط ارادے اورکسی تذبذب کے بغیر وہی کچھ کیجیے جس کے کرنے سے آپ کو خوف آتا تھا، اس کا تصور کر کے قہقہہ لگایئے۔اسے ٹھوکر ماریئے، اپنے ذہن سے نکال دیجیے، خوف کو نیچا دکھانے کے لیے اس کو للکاریئے، ٹھوکر لگایئے اور یاد رکھیے کہ آپ اپنے پرانے دشمن (خوف) سے جنگ آزما ہیں۔ جس کام سے آپ ڈرتے تھے وہی کیجیے۔ اگر آپ اندھیرے سے ڈرتے تھے تو اندھیرے کو مخاطب کرکے زوردار لہجے میں کہیے، میں تم سے نہیں ڈرتا، نکل جائو میرے دماغ سے، میں اندھیرے کو کچھ نہیں سمجھتا، میں ہر روز اندھیرے میں سویا کروں گا، چلے جائو، نکل جائو میرے ذہن سے۔ (2) پہلے طریقے کو دہرایئے! mبار بار دہرایئے، بار بار دہرایئے۔ mاپنے خوف کو حکم دیجیے، دھتکاریئے۔ mوہی کچھ کیجیے جس سے آپ کو خوف آتا ہے۔ mاسے بار بار دہرایئے، حتیٰ کہ آپ کے دماغ سے خوف نکل جائے۔ mبلند آواز میں کہیے، میں تم سے نہیں ڈرتا، میں اندھیرے پر لعنت بھیجتا ہوں، میں اسے کچھ نہیں سمجھتا۔ (3) اپنے خوف پر قہقہے لگایئے!یاد رکھیے خوف جس چیز سے خود خوف کھاتا ہے وہ ہے اس پر قہقہہ لگانا۔ اس کا مذاق اڑانا۔ اسے حقیر سمجھ کر اس کی ہنسی اڑانا۔ اس کا مذاق اڑایئے، اس پر قہقہے لگایئے، نفرت کا اظہار کیجیے، دھتکاریئے۔ بغیر کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کے، نہایت دلیری سے، مضبوط ارادے اور ثابت قدمی سے اس پر قہقہہ لگایئے وہی کیجیے جس سے آپ کو خوف آتا تھا۔ قہقہے لگایئے بار بار۔ (4) تقدیر پرست بن جایئے!مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار دو دشمن پارٹیوں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی ایک پارٹی کے سبھی ممبر موت کا ڈھیر بن گئے۔ صرف ایک شخص تنہا مقابلہ کرتا رہا۔ جب پولیس نے ان سب کو گرفتار کر لیا تو ایک صحافی نے تنہا لڑنے والے سے سوال کیا: جب تمہارے سارے ساتھی ایک ایک کر کے ڈھیر ہو گئے تو تم اکیلے کس طرح مقابلہ کرتے رہے؟ کیا تم موت سے نہیں ڈرتے؟جنگجو نے مسکرا کر جواب دیا موت سے کیا ڈرنا، یہ تو سب کے لیے ہے، ہر کسی کو اس کا مزہ چکھنا ہے، جو ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گا، میں تقدیر پرست ہوں موت سب کے لیے ہے اس سے ڈرنا کیسا؟ (5) تناسب کے اصول پر بھروسا کیجیے:تناسب کا قانون یا قانون تناسب یہ ہے کہ ایسی بہت سی باتیں جن سے ہم خائف رہتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر محض خیالی ہوتی ہیں، وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔دنیا میں کوئی بھی شخص ،کسی بھی وقت اورکسی بھی مقام پر محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے آپ یہ خوف دل سے نکال دیں کہ آپ محفوظ نہیں ہیں۔ اگر دوسرے لوگ محفوظ ہیں تو آپ بھی محفوظ ہیں۔ قانونِ تناسب یہ ہے کہ جوں جوں گاڑیوں کی تعداد بڑھتی ہے، حادثات کا تناسب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ آبادی زیادہ ہو گی تو اموات بھی زیادہ ہوں گی آپ بھی ان کروڑوں لوگوں میں شامل ہیں جو بے خوفی سے زندگی گزار رہے ہیں، لہٰذا ڈرنا بے معنی اورغیرمنطقی بات ہے۔ اپنے خوف کو ذہن سے نکال دیجیے۔ آخر میں آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں:میرے جاننے والے ایک بڑے سرمایہ کار کی اکلوتی بیٹی کو ہر دم یہ خوف لگا رہتا تھا کہ اگر وہ باہر گئی یا کسی اجتماع میں شامل ہوئی تو لوگ اسے گھورنے لگیں گے۔ اس کے باپ نے مجھ سے ملاقات کی اور اپنی اکلوتی بیٹی کے خوف کا قصہ سنایا۔ میں نے اسے ایک ماہر نفسیات کا ایڈریس دیا کہ وہ اس سے رابطہ کرے۔اس نے جواب دیا کہ وہ تو ایک چھوڑ، کئی ماہرین سے رجوع کر چکا ہے مگر بیٹی کا خوف دور نہیں ہوا۔میں نے مشورہ دیا کہ آپ اس سے ایک بار مل تو لو، بھلے آدمی نے میری بات مان لی اور بیٹی کو اس کے پاس لے گیا۔اگلے ہفتے وہ دوبارہ میرے پاس آیا اور مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اس کی بیٹی کا خوف دور ہو چکا ہے، اور میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ (ایم- آر- کوپ میئر خیالات کی طاقت سے مقتبس،ترجمہ: ڈاکٹر اقبال کاردار) ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks