کسی کے لَمس سے پہلے بدن غبار کیا
پھر اس کے بعد جنوں کی ندی کو پار کیا
انہیں بگاڑ دیا جو صفوں کے ربط میں تھیں
جو چیزیں بکھری ہوئی تھیں انہیں قطار کیا
بنی تھیں پردۂ جاں پر ہزارہا شکلیں
خبر نہیں کسے چھوڑا، کسے شمار کیا
اندھیری شب میں تغیّر پذیر تھی ہر شے
بس ایک جسم ہی تھا جس پہ انحصار کیا
مرے مکانِ جسد پہ مری حکومت تھی
کہ خود ہی غلبہ کیا خود ہی واگذار کیا
وجودِ خاک تھا، دریا سے جنگ کی میں نے
کہ سطحِ آب کو میدانِ کارزار کیا
کشش نے کھینچ لیا تھا زمین پر مجھ کو
سو گِرتے گِرتے بھی میں نے خلا شکار کیا
رفیقؔ سندیلوی
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks