تن کی سُوکھی دھرتی پر جب نام لِکھا تنہائی کا
بن کی پیاس بجھانے آیا اِک دریا تنہائی کا
سب پہچانیں قائم رکھنا ہرگز آساں کام نہ تھا
درد نے جب جب کروٹ بدلی، در کھولا تنہائی کا
خواب جزیرے کھوجتے کھوجتے پہنچا ہوں اس حالت کو
ورنہ عادت سے تو نہیں تھا، میں رَسیا تنہائی کا
پیاس رُتوں میں برسا تھا وہ قطرہ قطرہ دھرتی پر
آج اکیلا چھوڑ گیا تو دُکھ کیسا تنہائی کا
رُوپ سرُوپ کے کھیل سے عظمیؔ ہم نے تو یہ سیکھا ہے
جھولی میں بس رہ جاتا ہے اِک سپنا تنہائی کا
اسلام عظمیؔ
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote




Bookmarks