1850ء میں جب ال کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی، تو تین بندگاڑیاں میلان آئیں اور ایڈیسن کے گھر کے قریب ایک میدان میں کھڑی کر دی گئیں۔ ان میں چند آدمیوں کی تعداد کیلی فورنیا جارہی تھی۔ ال بھی اتنا کم عمر تھا کہ وہ سونے کی تلاش میں جوق در جوق جانے والوں کی اہمیت سے ناواقف تھا مگر ان مسافروں کی بڑی بڑی سفید گاڑیوں میں اس نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ان مسافروں کی آپس کی بات چیت میں اس نے ’’راکی پہاڑ‘‘ ’’بھینسے‘‘ ’’انڈین‘‘ ’’مغرب کا سفر‘‘ اور ایسے بہت سے نئے الفاظ سنے جن میں ال کو ایک عجیب سا جادو بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ال نے نئے الفاظ سے متعلق اپنے باپ پر الفاظ کی بوچھار کر دی۔ سیم ایڈیسن نے سوچا کہ اپنے چھوٹے لڑکے کو خاندان کے بعض واقعات بتانے کا یہ سب سے اچھا موقع ہے۔ اس نے حیرت زدہ بچے کو بتایا کہ اس کے باپ دادا کس طرح 1730ء میں ہالینڈ سے امریکہ آئے تھے اور ان کے خاندان کا پہلا آدمی نیوجرسی میں اورپنج پہاڑ کے دامن میں پیسیک دریا کے کنارے آباد ہوا تھا۔ ال کو دریائوں سے متعلق سب کچھ معلوم تھا کیوں کہ دریائے ہیورون اس مکان کے بالکل پیچھے بہتا تھا۔ ’’ابا ! پہاڑ کسے کہتے ہیں ؟‘‘ اس نے سوال کیا۔ یہ بتانے کے بعد کہ پہاڑ کیا ہوتا ہے سیم نے اسے امریکہ کی انقلابی جنگ کا حال بتایا جس میں ال کے پردادا جان ایڈیسن برطانیہ کے شاہ جارج سوم کے وفادار تھے اور جس کی سزا دینے کے لیے جارج واشنگٹن کے امریکی سپاہیوں نے انہیں نیوجرسی کے جیل میں قید کر دیا تھا۔ اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’بادشاہ کسے کہتے ہیں اور جیل کیا ہوتی ہے؟‘‘ سیم نے اس کا جواب سمجھانے کے بعد کہا: ’’تمہارے پر دادا، اولڈ ٹوری جان کے نام سے مشہور تھے۔ وہ چند سال تک نواسکوٹیا میں رہے۔ آخر کار کینیڈا کی حکومت نے انہیں اونٹاریو میں چھ سو ایکڑ زمین دے دی، جو اس شہر سے ایک ہزار میل سے زائد فاصلہ پر تھی جہاں وہ رہتے تھے۔ تمہارے دادا نے اپنا تمام سامان بیل گاڑیوں پر لادا اور بیوی بچوں کو لے کر مغرب کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہ بیل گاڑیاں ایسی ہی تھیں جیسے بند گاڑیاں سڑک کے پار کھڑی ہوئی ہیں۔‘‘سیم ایڈیسن نے بیل گاڑیوں پر مغرب کی جانب سفر کے حالات بیان کیے پھر بتایا کہ کینیڈا میں انڈینوں کے مقابلے کے لیے کس طرح زندگی کو خطرے میں ڈالنا پڑتا تھا اور اولڈٹوری جان نے ایک ویرانے میں جا کر کس طرح اپنا گھر بسایا تھا؟ انہیں کینیڈا میں جنگل صاف کر کے اور ناموافق حالات کا مقابلہ کر کے اسی طرح ایک نئی زندگی شروع کرنا پڑی تھی جس طرح اوہایو میں امریکہ والوں نے کی تھی۔‘‘’’ابا۔ کیا آپ کبھی انڈینوں سے لڑے بھی ہیں؟‘‘بچے نے سوال کیا۔ سیم ایڈیسن نے جواب دیا: ’’کبھی ان سے مقابلہ کرنے کی نوبت تو نہیں آئی مگر ایک بار تقریباً دو سو میل تک وہ مجھے ڈھونڈتے اور میرا پیچھا ضرور کرتے رہے تھے۔‘‘ باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اس نے کس طرح 1837ء میں کیپٹن میکنزی کی مشہور بغاوت میں حصّہ لیا تھا اور انڈینوں سے اپنی جان کیسے بچائی تھی؟ ’’یہی وجہ ہے بیٹے کہ اب ہم اوہایو میں رہتے ہیں۔ تمہارے پردادا اب بھی کینیڈا میں ہی رہتے ہیں۔ کبھی موقع ملا تو میں تمہیں ان سے ملاقات کے لیے چلوں گا۔‘‘ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭