
اس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی بیوی کا ہاتھ اپنے بھاری پنجے میں دبوچ لیا۔ شاید میں کینیڈا کے مقابلہ میں امریکہ سے زیادہ قریب ہوں۔ کچھ بھی ہو میں کینیڈا میں زیادہ جمہوری حکومت قائم کرانے کے لیے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا، خواہ اس کے لیے مجھے جنگ ہی کیوں نہ لڑنی پڑے۔ غور سے سن لو میں چاہتا ہوں کہ میرے چلے جانے کے بعد تم یہ سرائے اسی طرح چلاتی رہنا۔ آتش دان کی گرم روشنی میں سیموئل ایڈیسن بڑی سنجیدگی سے باتیں کرتا رہا۔ دیوار گیر کے گھڑیال نے گیارہ بجائے تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ لیمپ لے کر میرے ساتھ آئو۔ میں ولیم اور ٹینی کو الوداع کہنا چاہتا ہوں۔ مسز ایڈیسن مٹی کے تیل کا لیمپ اٹھا کر اس کی لَو کو اپنے ہاتھ سے بچاتی ہوئی اپنے شوہر کے پیچھے پیچھے بچوں کے سونے کے کمرے میں گئی۔ ایک بستر پر چھ سالہ ولیم محوِ خواب تھا۔ وہ کمبل اوڑھے بڑے آرام سے سو رہا تھا اور اس کے بھورے رنگ کے گھنگھریالے بال باہر نکلے ہوئے تھے۔لمبے تڑنگے باپ نے جھک کر بڑی نرمی سے اس کے بال چوم لیے۔ دوسرے بستر پر پانچ سالہ ٹینی سو رہی تھی۔ اس کا باپ جب اس پر جھکا تو بچی نے اپنے سر کو آہستہ سے جنبش دی جس سے اس کا چہرہ کھل گیا۔ سیموئل ایڈیسن نے بڑی محبت کے ساتھ اس کی آنکھوں کے گورے گورے پپوٹے چوم لیے اور دبے پائوں کمرے سے باہر نکل گیا۔ شوہر اپنا بھاری کوٹ اَور موٹے سمور کی ٹوپی پہننے میں مصروف تھا۔مسز ایڈیسن اپنے سونے کے کمرے میں گئی اور بستر کے نیچے سے ایک بندوق نکال لائی جو امریکہ سے خفیہ طور پر کینیڈا منگائی گئی تھی۔ سرائے کے صدر دروازے پر پہنچ کر مسز ایڈیسن نے بندوق اپنے شوہر کے ہاتھ میں دی، الوداع کہنے کے لیے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور جب وہ چلا گیا تو اس نے دروازہ بند کرکے قفل لگا دیا۔ سیموئل رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔ برف اس وقت بھی گر رہی تھی۔ سیموئل ایڈیسن کے ٹورانٹو پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ وہ راستے ہی میں تھا کہ کیپٹن ولیم میکنزی نے اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے شہر پر قبضہ کرنے اور لیفٹیننٹ گورنر کو قید کرنے کی کوشش کی۔ لڑائی میں حملہ آوروں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ اس مقابلے کے بعد جو لوگ بچ رہے وہ سیموئل ایڈیسن سے ایک جنگل میں آ ملے۔ بعض مفروروں نے بتایا کہ میکنزی دریائے نیاگرا کے ایک جزیرے میں بھاگ گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا رہنما اپنی جان بچا کر امریکہ پہنچ گیا ہے اس لیے اب اسے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ حکومت نے بڑی تیزی سے چار سو انگریزوں کا ایک باقاعدہ فوجی دستہ بھرتی کر لیا ہے، کینیڈا کے سوباشندوں کی رضاکار تنظیم قائم کر دی ہے اور اتنے ہی ریڈ انڈینوں کو سکائوٹنگ کی تربیت دی ہے۔ کرنل میک نیب کی کمان میں یہ فوجی برینٹفرڈتک پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور ویانا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایڈیسن کے ہارے ہوئے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا فوراً گھر بھاگ جائو اور اس وقت تک چھپے رہو جب تک تمہارا پیچھا کرنے والے تھک ہار کر بیٹھ نہ جائیں یا ہم اپنی تنظیم کرکے ٹورانٹو پر قبضہ کرنے کی ایک اور کوشش نہ کریں۔ چنانچہ وہ بڑی تیزی سے اپنی بیوی کے پاس واپس ویانا کی سرائے میں پہنچ گیا۔ سیم نے اپنی بیوی نینسی سے کہا:میرا یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیوں کہ اس سرائے کی ضرور تلاشی لی جائے گی۔ میں اپنے والد کے پاس جا رہا ہوں اور ان کے فارم میں چھپ جائوں گا، وہ خود یا میرے سوتیلے بھائی تمہیں میری خیریت کی اطلاع دیتے رہیں گے۔ سیم فوراً کیپٹن سیموئل ایڈیسن سینئرکے فارم کی طرف بھاگا جو ویانا کی بستی سے ایک میل دور تھا۔ کرنل میک نیب کی چھوٹی سی فوج پیش قدمی کرتی ہوئی ویانا میں داخل ہو گئی اور چند گھنٹوں میں ایڈیسن کی سرائے تک پہنچ گئی۔ فوجیوں نے سرائے کا کونا کونا چھان مارا۔ گول گول آنکھوں والا ولیم اور سہمی ہوئی ٹینی اپنی ماں کے سائے سے چمٹے ہوئے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ فوجیوں کے پہنچنے کے بعد ہر طرف ایک کھلبلی سی مچ گئی تھی اور سرائے کا ایک نوکر نظریں بچا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ کیپٹن سیموئل ایڈیسن کے فارم کی طرف بھاگا تاکہ نوجوان سیم کو خبردار کر دے کہ فوج والے جلد ہی وہاں بھی پہنچ جائیں گے(جاری ہے) (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی سے مقتبس) ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks