وہ تصور میں مرے آکے مُسکرائے جاتے ہیں
وہ تصور میں مرے آکے مُسکرائے جاتے ہیں
زُلفیں اپنی مرے شانوں پہ بکھرائے جاتے ہیں
پلاتے ہیں آغوش میں مری بیٹھ کر نظروں سے
بہکتے ہیں خُود اور ہمیں بہکائے جاتے ہیں
میکدہ ہیں أنکی آنکھیں اور لب ہیں جامِ شیریں
تشنگی بڑھتی ھے پیمانے جب سامنے لائے جاتے ہیں
وھی قاتل وہی ھمارے دُشمنِ جاں ٹھہرے
جو سینے سے اپنے ہمیں لگائے جاتے ہیں
أن کی سانسوں کی خُوشبو مل جاتی ھے مری سانسوں میں
یادوں کے دریچے سرِشام یوں مہکائے جاتے ہیں
وقتِ جُدائی کا عالم ہم سے نہ پُوچھئے گا ظفر
قدم قدم رُک کے قدم أٹھائے جاتے ہیں
وہ تصور میں میر ے برابر آئے جاتے ہیں
زُلفیں اپنی مرے شانوں پہ بکھرائے جاتے ہیں
Similar Threads:
Bookmarks