اچھوں سے تو ھر کوئی نباہ کر لیتا ھے بات تب ھی بنتی ھے جب کوئی بُروں سے نباہ کرکے
دِکھائے ۔ طبیعتوں کا اختلاف اور شخصیتی انا رشتوں میں تصادم یا سرد جنگ کی فضا قائم
کرنےمیں معاون رھتے ھیں دوسروں سے زیادہ توقعات وابسطہ کر لینا بھی ایک وجہ ھوتی ھے
ھم کو سب سے پہلے خود کو چیک کرنا چاھیےکہ ھم کہاں تک دوسروں کی توقعات پر پورا اتر
رھے ھیں کیونکہ کئی بار ایسا بھی ھوتا ھے کہ جیسی شکائتیں ھمیں دوسروں سے ہوتی ہیں وہی
شکائتیں دوسروں کو ھم سے بھی ھوتی ھیں ۔ اصل میں جب بات دلوں میں رھتی ھے اور ایک دوسرے سے گلہ شکوہ نہیں کرتے تو بات بڑھ جاتی ہے اور شیطان کو موقع مل جاتا ھے اپنی چال چلنے کا ۔ ایسی صورت میں انسان خود ھی دوسروں کے بارے غلط فہمیوں میں مبتلا رھتا ھے ۔ دوسرو ں کی عزت کریں اور اپنی عزت نفس کو مجروع نہ ھونے دیں ۔ دوسروں سے
کوئی شکائت ھے تو ان سے کہیں خود سے کوئی غلطی ھو جائے تو معذرت کر لینا چاھئے
رشتہ داروں کے بڑے حقوق ھوتےہیں ان سے صلہ رحمی اور اچھے برتاؤ کا حکم ھے یہی سوچ
کر جو ٹوٹے اسے جوڑیں ۔ محتاط رویہ بھی اچھی بات ھے اور رشتہ داررں سے اچھے سلوک
کا اجر ربِ کریم ھی دیتا ھے رشتہ داروں سے توقع نہ کی جائے ۔ ویسے رشتہ داروں سے اگر
بہتر سلوک اورمناسب تعلقات اس نیت سے رکھے جائیں کہ یہ اللہ سبحانہ التعالیٰ کا حکم ھے تو اللہ کریم ان کے دل بھی نرم کر دیتے ھیں ۔