صحرا کی جانب آج تک میں کبھی نکلا نھیں
پھر بھی پھٹا گریبان میرا کبھی سلا نھیں

چلتا رھاوہ مرے ساتھ ساتھ قدم با قدم
میں نے أس کو مگر کبھی دیکھا نھیں

صورتِ مجسم ھے وہ مری نظروں کے سامنے
صورت سے مگر أسکی میں ھی آشنا نھیں

أتر آتا ھے وہ خیالوں میں کسی بھی جانب سے
أس کے آنے کا صرف کہکشاں ھی راستہ نھیں

تصور میں تو رھاوہ ھمیشہ مرے ساتھ ساتھ
پیکر أس کا وجود میں مُجھ سے ھی ڈھلا نھیں

جس سے ملنے کی چاہ میں عُمر کٹ گئی اپنی
ظفروہ شخص تو مُجھے آج تک کبھی ملا نھیں



میری تُک بندی اگر آپ کو بور یا بدمزہ کرے تو خدا را در گزر سے کام لیں
کیونکہ مجھے بخوبی احساس ھے کہ شاعری میں کر ھی نہیں سکتا ۔ اس لئے
پیشگی معذرت ۔ظفر




Similar Threads: