آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آیئں گئے
زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آیئں گئے
پہچان لو تمام فقیروں کے خد و خال
کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آیئں گئے
گہری خاموشی جھیل کی پانی کو یوں نہ چھڑ
چھینٹے اڑے تو تیری قبا پہ بھی آیئں گئے
خود کو چھپا نہ شیشہ گروں کی دکان میں
شیشے چمک رہے ہیں تو پتھر بھی آیئں گئے
اے شہر یار دشت سے فرصت نہیں مگر
نکل سفر پہ تو ہم ترے گھر بھی آیئں گئے
محسن ابھی صبا کی سخاوت پہ خوش نہ ہو
جھونکے یہی بصورت صر صر بی ہیں گئے
Similar Threads:
Bookmarks