
آپ کا ذہن ایک بہت بڑے مواصلاتی نظام اور سٹیشن کی مانند ہے۔ انسان کا دماغ ہر معلومات کو حاصل کرتا ہے اور بھیجتا ہے کیونکہ اس چھوٹے سے حصے میں خیالات لہروں کی طرح آتے جاتے ہیں۔ آپ اگر چاہیں تو اس بات کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ایک چھوٹا سا تجربہ کر سکتے ہیں آپ ایسا کیجیے کہ اپنے کمرے میں موجود کسی شخص کی ذہنی حالت کا جائزہ لیجیے۔ آپ اس شخص پر بھرپور توجہ دیجیے اور خاموشی کے ساتھ اس کی حرکات پر بھرپور توجہ دیجیے۔ آپ کے سامنے موجود شخص آپ کی توقعات کے مطابق سوچ رہا ہے۔ بہت جلد اس کی حرکات اس بات کو ثابت کر سکتی ہیں۔ یہ انسان صلاحیتوں کا واضح منظر ہے جسے صرف انسانی عقل پیش کر سکتی ہے۔ انسان کے دماغ میں پائی جانے والی سوچ ایک ایسی توانائی ہے جس کے ذریعے اہم معلومات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن میں منتقل کیا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر انسان دنیا بھر میں اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے گفتگو کا سہارا لیتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہو جائیں اور بہترین گفتگو اور عمل کی خاطر انسان کو خاموشی کے ساتھ سوچ بچار کرنا ہوگا۔ لوگ بڑی خاموشی کے ساتھ بڑے بڑے مسائل حل کرتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی مدد سے آپ ہر قسم کے مسائل حل کر سکتے ہیں انسان کا ذہن بھی ٹیلیفون کی طرح تمام ضروری معلومات یا آواز خاص لہروں کی مدد سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ ٭ اپنی ذہنی طاقت کے نظام کو وسعت دیجیے: انسان کی سوچ کو وسعت دینا بہت آسان ہے ہر انسان اپنی ذہنی قابلیت کو بڑھا سکتا ہے۔ تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک طویل عرصے تک ٹیلی پیتھی کے ذریعے گفتگو کرتے تھے۔ اس فن کا آغاز پپیتی کے ایک گائوں میں ہوا۔ اس ہنر کے ذریعے لوگ ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچاتے تھے مقامی لوگ اس کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کرتے تھے بلکہ اس پر عمل پیرا ہو کر بہت سے مسائل حل کرتے تھے۔ یہاں ٹیلی پیتھی کا ذکر اس لیے نہیں کیا جا رہا ہے کہ آپ اس علم کو حاصل کریں بلکہ آپ کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ اس علم کی بنیاد انسانی سوچ کی بلندی اور گہری وسعت پر ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ میں ڈکر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جوزف بی۔ آر۔ رین کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا واضح رہے کہ ڈاکٹر جوزف اس یونیورسٹی میں موجود پیراسائیکالوجی دیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے جنہوں نے اپنی بھرپور کاوشوں کے سہارے ٹیلی پیتھی، کلیر و یونس اور ٹیلی کنسس جیسے مضامین کو اہمیت دی اور ان پر تحقیق کی۔ ڈاکٹر رین نے ایسے کئی موضوعات پر تحقیق کی ہے۔ ان کی تمام صلاحیتوں نے موجودہ دور کے نفسیاتی مضامین پر دل کھول کر بحث کی ہے۔ ڈاکٹر رین کی تمام تحقیقات کے مطالعے سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس پیچیدہ مضمون پر دل کھول کر بحث کی ہے۔ ان کی تحقیق سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ انسانی ذہن میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کی معلومات کو حاصل کرتا ہے اور دوسروں تک پہنچاتا ہے اس ایک جسمانی اعضاء کی مدد سے انسان ہر قسم کے گزرے ہوئے حالات موجود دور کے واقعات اور مستقبل میں ہوئے مسائل کو بھانپ سکتا ہے۔ انسانوں میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں جن کی مدد سے وہ مستقبل قریب میں رونما ہونے والے تمام واقعات سے نمٹ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان کے دماغ میں پائی جانے والی چھ حصوں کے علاوہ ایک اور حس بھی انسانی عقل کا بھرپور ساتھ دیتی ہے۔ جس کی مدد سے وہ ان واقعات کا پتہ لگا سکتا ہے جن کی مدد سے اسے ایسی باتوں کا پتہ چل جاتا ہے جو اس کے ساتھ اچانک رونما ہوتی ہیں دراصل انسان کے دماغ میں سب سے اوپر ایک ایسی سطح ہوتی ہے جو اس کا لاشعور کہلاتی ہے۔ جس کے سہارے تمام معلومات کو ذہن کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرتے ہیں وہ ان تمام حالات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض لوگوں کی چھٹی حس اس قدر کام کرتی ہے کہ وہ آئندہ ہونے والے واقعات یا مصیبتوں کے بارے میں جان لیتے ہیں اس بات کی زندہ مثال مرحوم جان ایف کنیڈی کا قتل ہے جس کا انکشاف بہت پہلے مشہور امریکن کلیرلے وینٹ نے کیا۔ انہوں نے اس قتل سے بہت پہلے ہی جان کنیڈی کے قتل کا دن، وقت اور حادثہ کی تفصیل بتا دی تھی۔ بدقسمتی سے ان کی یہ پیشن گوئی جان کنیڈی کی کوئی مدد نہ کر سکی۔ (برین ایڈمز کی کتاب کامیابی کیسے ؟ سے ماخوذ) ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks