آزادی
ہر ایک مقام سے اُونچا مقامِ آزادی
ہر ایک انقلاب سے ملا ہے بنامِ آزادی
جواب آرزوئے دل ہے ازضِ پاکستان
نہاں کے خوں میں ملے صُبح و شام آزادی
مہک مہک گئیں ہر ایک انجمن کی صفیں
ہماری بزم میں چھلکا وہ جامِ آزادی
ہمارے پاس خود آئی مراد کی منزل
ادھر طلب تھی ، اُدھر تھا خرامِ آزادی
جو روشنی تھی زمیں پر فلک نے بھی دیکھی
ملا ہے بامِ ثریا سے بامِ آزادی
ہوا میں گونج اُٹھا نعرہ آج پرچم کا
کہ لہلہا کے سنایا پیامِ آزادی
وہ اپنے رہبرِ ملت وہ اپنے قائدِ اعظم
اسے سمجھتے ہیں ماہ تمام آزادی
اُبھر کے نقشہ عالم پہ نام پاکستان
ہر ایک کو سونپ گیا احترامِ آزادی
ہم اپنی حد میں شہنشاہ ہو گئے ہیں مگر
ہر ایک فرد ہے اے گل غلامِ آزادی
Bookmarks