نہ صرف پوری پاکستانی قوم بلکہ عالمی سطح پر اس خطہ میں امن و امان کے خواہش مند ممالک اور خصوصی طور پر پاکستان کے خیر خواہ اور دوست ممالک پاکستان کے غیر یقینی ، سیاسی ، اقتصادی اور سکیورٹی حالات کے بارے میں پریشان اور پرامن ماحول کی بحالی کے لیے منتظر اور دعا گو تھے چنانچہ گذشتہ ایک سال سے حکومت اور بعض اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مختلف ایشوز اور خصوصا 2013 کے عام انتخابات کے بارے میں دھاندلی کے الزامات پر جو احتجاج بڑھتا بڑھتا پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی صورت میں پورے ملک میں بدامنی کی جو شکل و صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اْس کی پوری قوم نے حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کو غیر مشروط مذاکرات کی جو تازہ ترین دعوت وزیراعظم جناب نوازشریف کی طرف سے وزیر خزانہ سینٹر اسحاق ڈار کے ذریعہ تحریک انصاف کو پیش کی ہے اور جس مثبت انداز میں جناب عمران خان نے حکومتی دعوت کا خیرمقدم کرتے ہوئے PTI کی طرف سے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، عارف علوی ،شفقت محمود اور جہانگیرترین پر مشتمل ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اْس پر پوری قوم نے سْکھ کا سانس لیتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کے منہ پر یہ الفاظ ہیں کہ ’’دیر آید درست آید‘‘۔ حکومت کی طرف سے وزیراعظم نے جو ٹیم تشکیل دی ہے اْس میں ابھی تک اسحاق ڈار کی قیادت میں صرف وزیر پلاننگ پروفیسر احسن اقبال کا نام سامنے آیا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم کی صدارت میں ملک میں امن و امان کی بحالی اور ملک کی سکیورٹی کو در پیش بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے پس منظر میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلا س منعقد کیا گیا تھا جس میں چیف آف آرمی سٹا ف جنرل راحیل شریف نے بھی خصو صی دعوت پر شر کت کی تھی۔
قارئین کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف حال ہی میں امریکہ کے اہم دورے سے واپس آئے ہیں جہاں اوباما ایڈمنسٹریشن کے مختلف شعبوں اور کانگریس کی قیادت کے علاوہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری سے اُن کی ایک طویل اور جنو بی ایشیا اور مڈل ایسٹ کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے Strategic مستقبل کے بارے میں ایک تفصیلی گفتگو بھی ہوئی جس میں پاکستان کے مستقبل کے کردار پر اہم فیصلے بھی قدرتی طور پر شامل ہونگے ۔ اس میں کوئی دو رائے یا شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہے لیکن کرہٗ ارض کے جس مخصو ص خطہ میں یہ مملکت ِ خدادا د جغرافیائی سطح پر واقع ہے اُس کی گلو بل اہمیت کے باعث دیگر ہمسایہ اور بڑی طا قتوں میں ہمارے جغرافیائی محل و قو ع اور دنیا کی ساتویں بڑی آبادی رکھنے والی نیو کلئیر طا قت کی حا مل مملکت بین الا قوامی تو جہ کے مر کو ز ہو نے سے بھی ہٹ کر Isolation یا تنہائی میںنہیں رہ سکتی چنانچہ بین الا قوامی طا قتیں پاکستان کے اندر سیا سی و سکیورٹی استحکام یا عدم استحکا م پر اپنے اپنے مفاد اور Strategicمقا صد کے تناظر میں گہری نظر رکھنے پر مجبور ہیں۔ اس پس منظر میں امریکہ جیسی سپر پاور کے طاقتور سیکرٹری خارجہ کا افواج پاکستان کو ایک "Cementing force" کہنا نہایت معنی خیز اور قا بل غور عمل ہے ۔
چنانچہ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ نہ صرف پاکستان کے عوام اور حکو مت ِ پاکستان و تحریک انصا ف کے علا وہ تمام پارلیمنٹ کے اندر و با ہر سیا سی جما عتیں مجو زہ مذاکرات کی مثبت اندا زمیں پیش رفت کی خواہاں ہیں بلکہ راستے میں پیش آنے والی مختلف نو عیت کی رکاوٹوں کے بارے میں بھی منا سب غوروخو ض اور کا میابی سے ہمکنار ہونے کی خواہش مند ہیں چنانچہ با خبر حلقوں کے مطا بق غیر جانبدار عنا صر یہ سو چنے پر مجبور ہیں کہ آیا مذاکرات کی حکو متی دعوت خلو ص دل اور نیک نیتی پر مبنی ہیں یا اس کا مقصد تحریک انصاف کی ’’سونامی‘‘ کو پاکستان کے مختلف بڑے شہروں سے ٹکرانے سے روکنا ہے تاکہ بد امنی اور Law lessnessکا طوفان ملک کی شہری آبادی کو کسی ایسی سمت پر نہ ڈال دے جس سے امن وا مان قائم کرنے والے اداروں کو مشکلات پیش آئیں اور حکو متی مشینری کے معمول کے مطابق چلنے میں رُکاوٹ پیدا ہو۔
بعض حلقے مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریکیں اور کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی عوام میں بے چینی ، تحریک انصا ف کی پھیلتی ہوئی مختلف شہروں میں دھر نوں کی صورت میں امن و امان میں خلل اندازی حکو مت کے لیے دردِ سر نہ بن جائے جس کے لیے حکو مت کی طرف سے مذاکرات کا عمل شروع کر کے اس کو جو ڈیشل کمیشن کی تفصیلات طے کرنے میںتا خیری حر بوں کا سلسلہ مارچ تک جاری رکھا جائے تاکہ حکو مت آسانی سے سینٹ کے انتخابات کا مر حلہ حل کر سکے۔ ان سب باتوں کو اپو زیشن حلقوں اور خصو صی طور پر تحریک انصا ف کی طرف سے مفروضے بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور حکو مت کے اس مو قف کو رد کر نا بھی انصا ف کے تقا ضوں کے خلا ف ہے کہ حکو مت نیک نیتی سے ملک کے اعلیٰ ترین مفاد میں تحریک انصا ف کو مذاکرات کی دعوت دے رہی ہے چنا نچہ بعض حلقوں کے اس منفی نوعیت کے خد شا ت کو دور کرنے کے لیے حکو مت جلد از جلد جو ڈیشل کمیشن کی نو عیت اور طریقہ کار کو واضع کر نے میں کسی قسم کی تا خیر نہ کرے اس کے لیے سب سے اہم اور فیصلہ کن مر حلہ جو ڈیشل کمیشن کے" "Terms of Reference (TOR)پر باہمی اتفا ق پیدا کر نا ہے حکو مت کا کہنا ہے کہ جلد از جلد آج ہی یعنی جمعہ کی شام کو باہمی با ضا بطہ مذاکرات کا آ غا ز کر دیا جائے تحریک انصا ف بھی انکار نہیں کر رہی لیکن حکو مت کی درخواست ہے کہ غیر مشرو ط مذاکرات تسلیم کرنے کے باوجود حکو مت چاہتی ہے کہ تحریک انصا ف اپنے کراچی ، لاہور اور قو می سطح کے دھرنوں کا پروگرام منسو خ کر دے لیکن تحریک انصا ف کا کہنا ہے کہ جس لمحہ جو ڈیشل کمیشن قیام میں آ کر اپنا پہلا اجلاس منعقد کر ے گا وہ تمام احتجا ج اور دھرنے بخوشی ختم کرنے کی ابھی سے ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ اس کی وجہ تحریک انصا ف کے مطا بق اُن کا حکومت پر عدم اعتماد کا ما ضی کا تجر بہ بتایا جاتا ہے ۔ جسے شاہ محمو د قریشی نے Once Bitten Twice Shy" " کا نام دیا ہے۔ اس "Trust Dificit" کو دونوں پارٹیاں مل جل کر قومی مفاد میں جلد از جلد دور کریں تو بہتر ہو گا۔
Similar Threads:
Bookmarks