مسلم لیگ (ن) نے فیصل آباد کو اپنا گڑھ ثابت کر دیا۔ عمران خان کا پلان سی اس شہر میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا تھا‘ مسلم لیگ (ن) کے کارکن ایک روز قبل سڑکوں اور بازاروں میں نکل کر تحریک انصاف کے کارکنوں کے مقابل آگئے جو اگلے روز مظاہروں‘ دھرنوں اور شہر کو عمران خان کے اعلان کیمطابق بند کرنے کے انتظامات کر رہے تھے۔لگتا ہے مسلم لیگ ن کے شیر علی اور رانا ثناءگروپوں نے ایک دوسرے پر سبقت لینے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھاکر مرکزی قیادت کی نظروں میں سرخرو ہونے کیلئے تحریک انصاف کے مقابل اپنے کارکن اتار دیئے۔ مسلم لیگ (ن) کا کلچر ہے کہ اگر طاقت میں ہو تو لیڈر اور کارکن اندھی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مخالفین کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے‘ انگ انگ میں بجلیاں بھری نظر آتی ہیں۔ روئیں روئیں سے اشتعال ٹپکتا، طیش سے آنکھیں سرخ ہوتی ہیں اور زبان سے انگارے برستے ہیں۔سپریم کورٹ پر حملہ اسی کا کلچر کا حصہ ہے۔یہی سب کچھ پلان سی کے تحت فیصل آباد میں تحریک انصاف کے مظاہرین پر پتھراﺅ اور فائرنگ کی صورت میں نظر آیا۔ معاملات رات ہی کو بگڑتے نظر آرہے تھے۔ مرکزی قیادت نے اسکا کوئی نوٹس نہ لیا جسے (ن) لیگیوں نے اپنے لئے فری ہینڈ سمجھ لیا۔ جب ن لیگ اقتدار میں ہو اور پولیس ساتھ ہو تو بہادری کے جوہر دکھانے کا اس سے بہتر موقع کیا ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اقتدار سے باہر ہو تو بُزسے بھی چھوٹا دل ہوجاتاہے۔ مشرف دور میں آدھی سے زیادہ پارٹی بوٹوں سے چمٹ گئی۔ میاں نوازشریف کی جمہوری حکومت پر 1999ءمیں شب خون مارا گیا تو مسلم لیگ ن کے لیڈر اور کارکن ایک دَبکے پر ُدبک گئے۔ میاں نوازشریف نے لندن سے واپس آنے کی کوشش کی تو مشرف نے انہیں سعودی عرب پہنچا دیا‘ اس وقت ن لیگ کے رہنماءاور کارکن کہاں تھے؟ فیصل آباد کی صورتحال کو کیمو فلاج کرنے کیلئے پرویز رشید نے پریس کانفرنس کی، انکے دائیں بائیں ماروی میمن اور دانیال عزیز بیٹھے تھے جو کل مشرف کے ساتھی تھے۔ ن لیگ پر برا وقت آیا جو وہ لانے کی پوری کوشش کررہی ہے تو اس مرتبہ پرویز ہوسکتا ہے وہیں ہوں جہاں ماری اور دانیال تھے۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا کوئی دشمن نہیں۔ دو اڑھائی دہائیوں سے قیادت ایسے ہاتھوں میں آتی رہی کہ ہر دو نے خود کواپنا دشمن ثابت کردیا۔ اسکی سب سے بڑی دلیل ان پارٹیوں کا نوے کی دہائی میں دو دو مرتبہ اقتدار میں آکر اپنی اپنی مدت پوری کئے بنا اسمبلیاں تڑوا لینا اور حکومتیں ختم کرا لینا ہے۔ آصف علی زرداری کے زیر سایہ پیپلزپارٹی نے تیسری مرتبہ اقتدار میں آکر اپنی پانچ سالہ مقررہ مدت تو پوری کرلی مگر پیپلزپارٹی کو اپنی پالیسیوں سے کئی دہائیوں کیلئے اقتدار سے دور کر دیا۔ مسلم لیگ ن بھی تیسری بار اقتدار میں آئی تو ڈیڑھ سال ہی میں اسکی مقبولیت زرداری کی پارٹی کی اس سطح پر آگئی ہے جس پر زرداری نے پانچ سال میں گرایا تھا۔ فیصل آباد میں ایک آدمی مارا گیا۔ قتل میں کون ملوث ہے‘ اس پر دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں۔ مقدمہ درج ہو گیاہے۔ قاتل آج نہیں تو کل کٹہرے میں آجائیگا۔کہا جاتا ہے فائرنگ کرنیوالا رانا ثناءاللہ کا داماد ہے۔رانا ثناءاللہ نے اسکی تردید کی ہے۔ عدم گرفتاری سے لگتا ہے کہ وہ اگر رانا صاحب کا رشتہ دار نہیں تو لیگی لیڈروں کا خدمت گار ہوگا تبھی پکڑا نہیں گیا۔ مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں کو میدان میں نہ لاتی تو یہ دو قتل نہ ہوتے۔ فیصل آباد بھی کھلا رہتا۔ عمران خان ایک خاص جگہ پر تماشا لگا کرواپس چلے جاتے۔ انکی کال پر گزشتہ روز کئی شہر بند رہے۔ اب ملک میں خانہ جنگی کی فضا بن رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نقصان کس کازیادہ ہوگا!لیگی لیڈردو کارکنوں اور فیصل آباد میں ہنگامہ آرائی کا ذمہ دار عمران خان کوقرار دیتے ہیں۔گویا جس نے فائرنگ اور جن لوگوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں پرپتھراﺅ کیا وہ معصوم تھے۔عمران کا ایجنڈہ تشدداور ہنگامہ آرائی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ فیصل آبادمیں ن لیگ نے عمران کے ایجنڈے کی تکمیل کی کوشش کی۔ عمران خان نے اپنے مطالبات محدود کر دیئے ہیں‘ حکومت شاید ان سے بھی طاہرالقادری کی طرح دھرنا سمیٹ اور لپیٹ لینے کی توقع رکھتی ہے۔ عمران خان کی جبلت اور فطرت سے لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ حاصل کرکے ہی دھرنا سمیٹیں گے۔ طاہرالقادری نے ہر سال ”لاگ“ لینے کو وطیرہ بنالیا۔لائی لگ پھر بھی انکے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال پی پی پی کا بازو مروڑ کر اپنا حصہ وصول کیا تو اب ن لیگ کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر بعض حلقوں کے مطابق ساڑھے تین ارب وصول پائے۔ مطالبہ پانچ ارب کا تھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ باغی کو بغاوت کیلئے اپنی سیاست داغی کرنے کی قیمت 30 کروڑ ادا کی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عمران کا فیصل آباد میں پلان سی ناکام بنانے کیلئے حکمت عملی اختیار کی‘ کراچی اور لاہور میں بھی اسی کو آگے بڑھایا گیا تو کچھ لوگوں کی رائے میں عمران خان کو پلان ڈی کے آغاز کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ کچھ لوگوں کی خوش فہمی نما غلط فہمی ہے۔ آخر کون ہے جو ایک جمہوری حکومت کو اسکی خواہش کے برعکس اسے ہٹا دے۔ ملکی حالات جتنے بھی مخدوش ہو جائیں‘ حکمران طبقے کو اس سے کیا فرق پڑیگا۔ عوام کی اس لئے پروا نہیں کہ ان سے کونسے ووٹ لینے ہیں۔ الیکشن تو اسی طرح جیتنا ہے جس کی نشاندہی عمران خان کررہے ہیں۔ عمران ایک سال چار حلقے کھولنے کے مطالبات کرتے رہے۔ انکی کسی نے نہ سنی۔ انتخابی ٹربیونل کا راستہ دکھایا جاتا رہا۔ ایاز صادق کی کامیابی کو عمران نے چیلنج کیا تو ڈیڑھ سال سٹے چلتا رہا۔ کل ٹربیونل نے حلقہ کھولنے کا حکم دیا تو سپیکر صاحب کے وکیل کہہ رہے ہیں ، ٹربیونل کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چلینج کرینگے.... کیوں؟ اگر واقعی جیتے ہیں تو پھر گنتی ہونے دیں۔ ہم جیسے لوگ سمجھتے تھے کہ مسلم لیگ ن دھاندلی سے نہیں اپنی مقبولیت اور کارکردگی کے باعث جیتی ہے۔ چند سیٹوں پر بے ضابطگیاں ضرور ہوئی ہونگی۔ حکومت جس طریقے سے جوڈیشل کمیشن بنانے سے گریز اور اسکے وزیر اپنے حلقے کھولنے کی راہ میں انتہائی مزاحم ہو رہے ہیں‘ اس سے 2013ءکے انتخابات مشکوک ہو رہے ہیں۔ نوازلیگ کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔عمران کے احتجاج پر بھی پوری ہوجائے گی لیکن بُرے طریقے سے ہوگی۔بہتر ہے عمران کے ساتھ نیک نیتی سے مذاکرات کئے جائیں،جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ چھ سات سیٹوں پر دھاندلی ثابت ہوگی،ان میں سے زیادہ جینوئن طریقے سے بھی ن لیگ جیت سکتی ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks