جماعت اسلامی کے بعد جماعت الدعوۃ نے بھی مینار پاکستان پر ایک کامیاب اجتماع کا انعقاد کیا۔ ان اجتماعات کے قوم کو اتحاد اور یگانگت کی لڑی میں پرونے جیسے کئی مشترکہ مقاصد تھے۔ جہد مسلسل، عزم اورارادہ پختہ رہا تو رکاوٹوں اور مخالفتوں کے باوجود ان مقاصد کا حصول ممکن ہوجائے گا ؎
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خُدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
دونوں جماعتوں کا اپنے کاز کی کامیابی کے لئے خدا پر مکمل یقین اور حالات و واقعات اور قومی معاملات اور خطے کی صورتحال پر گہری نظر ہے۔ جماعتہ الدعوہ نے خود کو قومی سیاست سے دور رکھاجبکہ جماعت اسلامی بیک وقت دین کے فروغ کے ساتھ ساتھ سیاست میں موجود ہے۔ گو وہ سیاست میں ایک بڑی پارٹی نہیں بن سکی تاہم وہ نظم و ضبط اور کئی حوالوں سے ایک مثالی سیاسی پارٹی ضرور ہے۔ جن پارٹیوں کو ہم بڑی پارٹیاں کہتے ہیں ان میں کبھی پارٹی الیکشن نہیں ہوئے جبکہ جماعت اسلامی میں باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں جن پر کبھی انگلی نہیں اُٹھی۔مینار پاکستان پر جماعت کے امیر سراج الحق کی خواہش اور ہدایت پر تین روزہ اجتماع ہوا، اس میں میڈیا کا کردار بھی بلاشبہ اہم رہا، گزشتہ شب امیر جماعت کی طرف سے منصورہ لاہور میں میڈیا کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں بھی انہوں نے قومی یکجہتی اور یگانگت پر زور دیا۔ موجودہ کشیدہ سیاسی حالات میں وہ اپنا کردار بڑی جانفشانی سے ادا کر رہے۔ دھرنوں کے بعد سے وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے کوشاں رہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ جو شواہد سامنے ہیں ان کے مطابق تو حکومت کی مذاکرات میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آتی۔ شاید حکومت سمجھتی ہے کہ طاہرالقادری کے دھرنے کے خاتمے اور ان کی طرف سے عمران خان سے دامن چھڑا لینے کے بعد سب اچھا ہوگیا ہے۔ سراج الحق نے حکمرانوں کی یہ غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران غلط فہمی میں نہ رہیں، بحران ابھی ختم نہیں ہوا۔ بعض اوقات سفینے ساحل کے قریب ڈوب جاتے ہیں۔ وفاقی حکومت فی الفور پی ٹی آئی سے مذاکرات کی تاریخ کا اعلان کرے، حکمران دھاندلی میں ملوث نہیں تو جوڈیشل کمشن کے قیام میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ حکمرانوں کو جمہوریت کی بقا اور خود اپنے مفاد میں سراج الحق کے صائب مشورے کو اہمیت دینی چاہئے۔ یہ مشورہ بین السطور ایک پیغام اور کسی حد تک وارننگ بھی ہے۔جماعت الدعوۃ نے سیاست کو کبھی حرام نہیں کہا تاہم اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے کبھی سیاست میں آنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہمارے ہاں کی مروجہ سیاست میں مبالغہ آرائی ہوتی ہے، جماعتہ الدعوہ کا خاصا اور اس کے امیر حافظ محمد سعید کا یہ اصول ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس کا برملا اظہار کرنے سے گریز اور دریغ نہیں کرتے۔ وہ جہاد کشمیر کو جائز سمجھتے ہیںاور وہاں اپنے کردار سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ امیر جماعۃ الدعوہ حافظ محمد سعید نے مینار پاکستان پر منعقدہ اجتماع سے خطاب کے دوران بھی کہا کہ بھارت افغانستان فوج بھجوا سکتا ہے تو مجاہدین کو بھی مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے کشمیر جانے کا پورا حق حاصل ہے۔ کشمیر کی آزادی اور مظلوم کشمیریوں کی مدد جماعتہ الدعوہ کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ مینار پاکستان کے اجتماع میں جہاں قوم کے اتحاد پر زور دیا گیا وہیں ان کا یہ پیغام بھی تھا ؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
حافظ محمد سعید نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمان ملک اپنی کرنسی، اسلامی فوج، مشترکہ دفاع اور بین الاقوامی عدالت انصاف بنائیں، اگر یورپی یونین بن سکتی ہے تو اسلامی یونین کیوں نہیں؟حکومت 60 مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اسلام آباد بُلائے، اسلام کی بنیاد پر اتحاد قائم کریں، او آئی سی کا ایجنڈا بدلیں ۔۔۔ آج مسلم اُمہ جس طرح انتشار اور بحرانوں کا شکار ہے حافظ سعید کے مشورے کے مطابق اس کے اتحادکے لئے اور اسے بحرانوں سے نکالنے کے لئے عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ حافظ سعید نے داعش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش جیسی تنظیمیں عراق اور شام کی بجائے فلسطین جا کر اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجائیں۔ داعش کی سرکوبی کے لئے عرب ممالک امریکہ کی قیادت میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ حافظ سعید کی طرح اردن کے سابق ولی عہد اور عالمی سطح کے دانشور شہزادہ حسن بن طلال نے بھی چند ہفتے قبل مسلم حکمرانوں کو ان الفاظ میں، ایک ہوں مسلم ۔۔۔ کا مشورہ دیا تھا۔ میں جس پیغام اور اصول کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ ہماری قدیم روایت شوریٰ ہے۔ یہ گفتگو اور مکالمے کا ایسا ہُنر ہے جس میں ہر انسان کی عزت و وقار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور یہ ہمارے خطے کے تمام مذاہب کی مشترکہ میراث ہے۔ قرآن حکیم میں حکمران اور رعایا کے مابین تعلق کے ضمن میں شوریٰ کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ عید قربان کا موقع ہمیں عظمت و دانائی کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے تنوع اور کثرت کا احترام کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھنا اور مشترکہ نکات پرمتحد ہو جانا چاہیے۔ دوسری صورت میں شر کی قوتیں ہمارے ملکوں پر قابض ہو جائیں گی۔ آئیے ہم اپنے خالق کے مخلص بندے بن جائیں۔ ایک بار پھر شوریٰ کا نظام اپنا لیں، ایسا نظام جس میں سب کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور فیصلہ سازی میں کسی ایک شخص، مذہب یا فرقے کی اجارہ داری قائم نہیں ہونے دی جاتی۔
مسلم حکمران حافظ محمد سعید اور شہزادہ حسن بن طلال کے مشورے کو حرز جان بنا لیںتو مسلم امہ اپنا کھویا مقام حاصل کر سکتی ہے۔ یورپی یونین کی طرح متحد اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت بڑی معاشی قوت اور دفاعی حوالے سے ناقابلِ تسخیر طاقت بن سکتی ہے اور پھراس کے سپر پاور ہونے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔
Similar Threads:
Bookmarks