سرحدوں پر ہنگامی حالت , اندرون ملک اتحاد اتفاق کا فقدان کیا رنگ لائے گا
سیاسی ماحول میں تلخی اور کڑواہٹ زوروں پر ہے ، سیاسی خلفشار ہے کہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان رسہ کشی ابھی جاری تھی کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین بھی کشمکش سے سیاسی تنائو کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے جس سے قومی سیاست مزید غیر مستحکم اور معیشت مزید غیر متوازن ہو تی جا رہی ہے ۔ اس ساری صورت حال میں نقصان صرف اور صرف ملک و قوم کا ہو رہا ہے ۔عوام کی اکثریت کو سیاستدانوں کی چھینا جھپٹی اور دھینگا مشتی سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ان کے مسائل تو مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، لاقانونیت اور بجلی تیل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہیں۔ ادھرانڈیا میں مودی سرکار نے آپریشن 44 پلس شروع کر رکھا ہے کشمیرکے ریاستی انتخابات میں 44 سے ز یادہ سیٹیں جیتنے کی صورت میں وزیر اعلیٰ بی جے پی کا اور ہندو منتخب ہو سکے گا اور یہی ریاستی انتخابات میں مودی سرکار کا ہدف اور منتہائے مقصود ہے کہ ہندوستان بھر میں تمام وزرائے اعلیٰ ہند ومنتخب ہو جائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مودی سرکار نے اجیت دیول کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر منتخب کیا ہے جو دس سال انڈین انٹیلی جنس بیورو کا ہیڈ آف آپریشنل ونگ رہا ہے اور اب 30 مئی 2014 ء سے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔ اس آزمودہ کار اور اسلام دشمن انٹیلی جنس آفیسر کے علاوہ مودی سرکار کو آپریشن 44 پلس کے سلسلہ میں راشٹر یہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی مکمل خدمات بھی حاصل ہیں۔ بھارت سرکار کا منصوبہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جو مسلم اکثریت کی ریاست ہے وہاں مسلم آبادی کی نسبت ہندو آبادی میں اضافہ کر دیا جائے جس کے لیے کشمیر سے ہجرت کر جانے والے ہندو پنڈتوں کو واپس دوبارہ کشمیر میں لا کر آباد کیا جا رہا ہے ۔نیز آر ایس ایس کے تربیت یافتہ لوگ بھی پنڈت بنا کر کشمیر میں آباد کیے جارہے ہیں اس طرح مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی آبادی مسلمانوں سے بڑھا کر اور وہاں تربیت یافتہ عسکریت پسند ہندوئوں کو آباد کر کے مودی سرکار چاہتی ہے کہ ہندوستان میں ہر سطح پر اقتدار ہندئووں کے قبضہ میں آجائے اور مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر میں پاک فوج کے خلاف مسلح تحریک بھی شروع کی جا سکے ۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ہندوستانی تخریبی ذہنیت کے فروغ کے لیے بھارتی اورعالمی میڈیا پر پاکستان اور مسلم مخالف پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے ۔بھارت میں اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان سرگرمیوں کو ہوا دی جا رہی ہے اس کی بدترین مثال سیالکوٹ کے سرحدی دیہات میں انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز کی ورکنگ بائونڈری پر بلا اشتعال فائرنگ اور غیر معمولی سرحدی خلاف ورزیاں ہیں۔ان سرحدی خلاف ورزیوں میں جس قدر فائرنگ اور بھاری اسلحہ کا استعمال ہو رہا ہے وہ کسی باقاعدہ جنگ سے کم نہیں ایک اندازے کے مطابق بھارت کی جانب سے پاکستانی سرحدی دیہات میں چار ہزار سے زائد صرف مارٹر گولے پھینکے گئے ۔ جتنا اسلحہ بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں میں آج تک استعمال کیا گیااتنا اسلحہ بالعموم پاکستان رینجرز اور بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کے پاس موجود نہیں ہوتا اس قدر اسلحہ صرف اور صرف جنگ کی صورت میں بطور کمک منگوانا پڑتا ہے۔ یہ بجا ہے کہ بھارتی دست درازیوں اور ناجوازیوں کا سبب اقوام متحدہ میں وزیر اعظم پاکستان کی وہ تقریر بنی جس میں انہوں نے کشمیر بارے سخت اور واضح موقف اختیار کیا تھا لیکن معروضی حالات کا تقاضا یہ تھا کہ بھارتی جارحیت اور مسلم دشمنی سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت ، عوام اور فوج متحد ہو کر متفقہ حکمت عملی مرتب کرتے لیکن اپنے ہاں تخریبی احتجاجی اور مفاد پرستی کی سیاست کے سبب شدید سیاسی و معاشی عدم استحکام برپا ہے ۔ حکمرانوں ، سیکیورٹی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں وہ یکجہتی نہیں جو موجودہ حالات میں مطلوب ہے ۔ سرحدوں پر ہنگامی اور جنگی حالت ہے جبکہ اندرون ملک اتحاد و اتفاق کا شدید فقدان ہے ۔ بھارت کے علاوہ ایران اور افغانستان جیسے ہمسایوں سے بھی ہمارے تعلقات خوشگوار نہیں۔ ہمارا جنم جنم کا ہمسایہ اور دوست ملک چین بھی بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوستی کی جانب آمادہ ہو رہا ہے اور ہم بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ مخالفت میں اضافہ کر رہے ہیں اور ہمارے کارپردازانِ سیاست باہمی مخاصمت میں الجھے ہوئے ہیں۔کاش انہیں ملک و قوم کی خبرگیری کی فرصت مل سکے ۔ ٭…٭…٭
Bookmarks