جلتا ہوں ہجرِ شاہد و یادِ شراب میں
شوقِ ثواب نے مجھے ڈالا عذاب میں
کہتے ہیں تجھ کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
پھیلی شمیمِ یار میرے اشکِ سرخ سے
دل کو غضب فشار ہوا پیچ و تاب میں
رہتے ہیں جمع کوچہء جاناں میں خاص و عام
آباد ایک گھر ہے جہانِ خراب میں
بدنام میرے گریہء رسوا سے ہو چُکے
اب عذر کیا رہا نگاہِ بے حجاب میں
مطلب کی جستجو نے یہ کیا حال کر دیا
حسرت بھی نہیں دلِ ناکامیاب میں
ناکامیوں سے کام رہا عمر بھر ہمیں
پیری میں یاس ہے جو ہوس تھی شباب میں
پیہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں
Similar Threads:
Bookmarks