خزاں زدہ باغ پر بوندا باندی


آمدِ باراں کا سنّاٹا
کبھی کبھی اس سنّاٹے میں ٹوٹ کے گرتے پتّے
دیو آسا اشجار کھڑے ہیں
کہیں کہیں اشجار تلے ویران پرانے رستے

لے کے چلیں آوارہ ہوائیں
ایک نشانی اس کی جو تھی اس کو واپس پہنچانے
آج بہت دن بعد آئی ہے شام یہ چادر تانے
اک وعدہ جو میں نے کیا تھا اس کی یاد دلانے

آج بہت دن بعد ملے تھے گہری پیاس اور پانی
ساحلوں جیسا حسن کسی کا اور میری حیرانی



Similar Threads: