لگ رہا ہے شہر کے آثار سے
آ لگا جنگل در و دیوار سے
جن کو عادت ہو گئی صحراؤں کی
مطمئن ہوتے نہیں گھر بار سے
یہ تو سارا بازوؤں کا کھیل ہے
شہ رگیں کٹتی نہیں تلوار سے
آ گرے ہیں عین ویرانی کے بیچ
کچھ پرندے کچھ شجر بیمار سے
راستوں پہ گھاس اُگ آئی اگر
کون لوٹے گا سمندر پار سے
پھٹ نہ جائے دل کہیں اصرار سے
اس لیے گزرے نہیں بازار سے
***
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks