
Originally Posted by
intelligent086
حضور کے فرمان کے مطابق چلنے والے کا کردار قائداعظمؒ کا کردار بن جاتا ہے جو جھوٹ اور منافقت سے احتراز کرتا ہے کیونکہ آپ نے ہر حال میں سچ بولنے کی تلقین نہایت زور دیکر بیان فرمائی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے ”ان کے دلوں میں مرض ہے تو اللہ نے ان کے دلوں کے مرض کو او ر زیادہ کر دیا ہے۔ اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ (البقرہ)یہی وجہ ہے کہ بانی¿ پاکستان ایک ایسے وکیلِ بے مثال تھے کہ اگر کوئی جھوٹا کیس اُن کے پاس آتا تو وہ خطیر رقم بھی واپس کرکے لینے سے انکار کر دیتے تھے کہ یہ کیس جھوٹا ہے اور میں جھوٹ کی وکالت (جو بالآخر ذلالت کا سبب بن جاتی ہے) نہیںکر سکتا۔ اگر ہمارے صرف سیاستدان ہی نہیں خاص و عام بھی اس عادات کو اپنا لیں تو نہ تو دھرنے کی نوبت آتی اور نہ ہی کروڑوں‘ اربوں خرچ ہوتے اور نہ ہی ملکی معیشت کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ آج عید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذی الحجہ کے دس دنوں کی جو فضیلت بیان فرمائی ہے‘ وہ درج ذیل ہے۔ ذرا غور فرمایئے‘ ہم خود ہمارے سیاستدان اور خاص طورپر ”دھرنوں“ بھائی اس پر کتنا پورے اترے ہیں۔ ایک سیاستدان تو یہ کہہ کر ہلکان ہوا جاتا ہے کہ قربانی سے پہلے کسی کی قربانی ہو جائے گی‘ مگر اگر قربانی کی قیمتوں کی کنوارہ سیاستدان عید سے پہلے وضاحت کر دیتا تو بہتر تھا۔ ذی الحجہ کے دس دن میں نیک اعمال اللہ تعالیٰ کو اتنے پسند ہیں کہ ان دس دن کے دوسرے دنوں کا مرتبہ بنے تھے۔ کسی نے عرض کیا اگر اس عشرے کے علاوہ دوسرے دنوں میں جہاد کرے‘ حضور نے ارشاد فرمایا ان دس دنوں کے نیک اعمال کا مقابلہ دوسرے دنوں کا جہاد بھی نہیں کر سکتا۔یہ سطور عمران اور قادری کے حضور اس لئے پیش کی ہیں کہ وہ اپنے دن دنوں کے اعمال کا جائزہ بغور لیں۔ حضور نے فرمایا کہ ”لیکن اگر کوئی شخص جہاد میں اپنی جان و مال لیکر جائے اور میدانِ جنگ (جہاد) میں دونوں چیزیں خرچ ہو جائیں یعنی وہ شہید ہو جائے تو بے شک پھر جہاد اس عشرے کے اعمال سے بہتر ہے (بخاری‘ طبرانی)کیا خود کو ملک و ملت کے مفکرانِ اعظم نے وطن کی خاطر اپنی جانیں ضرب عضب میں قربان کرنے والے شہدائے کے خون کا احساس کیا‘ جو اپنا منہ مائیک سے لگ جانے پر خون نکلنے سے آبدیدہ و رنیجدہ ہوکر خطاب چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے کنٹینر چھوڑ کر آئی ڈی پیز کے پاس جانے اور ان کا حوصلہ بند کرنے کی بجائے کراچی‘ میانوالی سیرسپاٹے پر نکل جاتے۔ ہم نہیں کہتے کہ دھرنوں دھرنے کی عادت بد کو ترک کر دیں۔ ہم تو قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سیلاب ناگہانی اور ضرب عضب کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اور ذی الحجہ کے دنوں کے احترام میں یہ دھرنے ملتوی کر دیتے۔ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک عمل صالحہ زیادہ معظم اور محبوب ہوں۔ ان ایام عشرے‘ تم ان دنوں میں سبحان اللہ‘ لا الہ الااللہ کثرت سے پڑھا کرو۔ (طبرانی) مگر ییاںتو عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی‘ بھنگڑے‘ جھومر ‘ لڈیاں اور دوسرے فنکار رقصِ ابلیس کراتے رہے اور شیخ الاسلام کرکٹ کھیل کر گرگٹ والے رنگ بدلتے رہے اور کہا میں زرداری کی زبان گندی سے کھینچ لوں گا۔ ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہے۔ ان دس دن میں ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر‘ ہر رات کا قیام لیلتہ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی) مگر قادری صاحب کا فرمان ہے۔ دھرنے میں شرکت لیلتہ القدر کی رات سے بھی زیادہ ثواب کی حامل ہے۔ خدا انہیں ہدایت دے اور نظام بدلنے والوں کا دل بدلے مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ ہر رات اور دن کو ہر مسلمان کو اپنے طعن و تنقید کے نزے پہ چڑھائے رکھا جبکہ حضور کا فرمان ہے کہ مومن پر لعن طعن کرنا اُسے قتل کے مترادف ہے۔ بخاری شریف کے مطابق صحابہؓ نے ایک ایسے شخص کی پٹائی کی جس نے شراب پی رکھی تھی۔ جب وہ واپس لوٹا تو کسی نے کہا خدا تجھے رسوا کرے تو حضور نے فرمایا ایسا نہ کہو‘ ایسا کہنے سے شیطان کی مدد ہوتی ہے مگر یہاں تو یہ حال کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو شیطان کہنے والے پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے اور دوسرے نے پارلیمنٹ سے مستعفی نہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ عیدالاضحی سے پہلے انسانوں کی قربانی کی کوشش کرنے والے اب انسانوں کو جانور بنانے میں ناکام ہونے کے بعد ڈی چوک میں قربانی کا خون بہا کر بالآخر خون بہا لیکر عالم بالا کی بجائے بالا بالا گھر سدھار جائیں گے۔ مُلائے حرم کے مولانا کے بارے میں اقبالؒ نے یونہی نہیں کہہ دیا تھاتری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمالتری اذاں میں نہیں ہے مری کا سحر کا پیام
Bookmarks