ستارے مشعلیں لے کر مجه کو ڈهونڈنے نکلیں...
میں رستہ بهول جاوں جنگلوں میں شام ہو جائے..
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے..
ہم اس سے ہٹ کر چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جایے
.
.
.
یہ جو آنسو دل میں گرتے ہیں وہ آنکهوں میں نہیں رہتے
بہت سے حرف ایسے ہیں جو لفظوں میں نہیں رہتے
کتابوں میں لکهے جاتے ہیں دنیا بهر کے افسانے
مگر جن میں حقیقت ہو کتابوں میں نہیں رہتے
بہار آئے تو ہر اک پهول پر اک ساته آتی ہے
ہوا جن مقدر ہو وہ شاخوں پر نہیں رہتے
لیے پهرتے ہیں کچه احباب ایسے مضطرب سجدے
جہاں دربار مل جائے جبینوں میں نہیں رہتے
مہک اور تتلیوں کا نام بهونرے سے جدا کیوں ہے
کہ یہ بهی خزاں آنے پہ پهولوں میں نہیں رہتے
.
.
.
طرز کلام ان کا ہوا طرز خاص و عام
بدلیں گے اب وہ بات کا انداز کس طرح
بدلا جو اس کی آنکه کا انداز تو کهلا
کرتے ہیں رنگ پهول سے پرواز کس طرح
آنکهوں میں کیسے تن گئی دیوار بے حسی
سینوں میں گهٹ کے رہ گئی آواز کسی طرح
آنکهوں میں موم ڈال کے بہٹهیں گے کب تلک
آئینوں سے چهپائیں گے یہ راز کس طرح
.
.
.
شہر والوں کو کچه خبر ہی نہیں
کیسا سیلاب آج راہ میں ہے
ہے تعلق تو ایک سادہ لفظ
پهر جو بهی ہو، وہ نباه میں ہے
حادثہ ہو چکا کہ ہونا ہے
بهیڑ کیسی یہ شاہراہ میں ہے
سر میں بهی ہو یہ لازمی تو نہیں
جو فضیلت کسی کلاہ میں ہے
کب سے میں نے پلک نہیں جهپکی
کوئی جستجو میری نگاہ مین ہے
Similar Threads:
Bookmarks