Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
خوشــبو کسی تشہیر کی محتاج نہیں ہوتی
سچا ہوں ــ مگر اپنی وکالت نہیں کرتا

sahi
میرے ہاتھ میں قلم ہے، میرے ذہن میں اُجالا ہے
مُجھے کیا دبا سکے گا توظلمتوں کا پالاہے
مُجھے فکر امن عالم، تُجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں، تُو غروب ہونے والا ہے
ﮬﻢ ﺍﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﺧﺮﯾﺪﺗﮯ ﮐﯿﺴﮯ.......؟؟؟؟
ﮬﻤﺎﺭﯼ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﭽﮭﻠﯽ ﺻﺪﯼ ﮐﮯ ﺳﮑﮯ ﺗﮭﮯ
گمنام دیاروں میں سفر کیوں نہیں کرتے
اجڑے ہوےّ لوگوں پہ نظر کیوں نہیں کرتے
یہ خواب یہ خوشیوں بھرے ہنستے ہوئے خواب
یہ خواب مرے دل پہ اثر کیوں نہیں کرتے
خواہش کے ، طمانیتِ احساس کے پنچھی
کچھ روز میرے گھر بسر کیوں نہیں کرتے
صبحوں سے ہیں مغلوب تو پھر زُعم ہے کیسا
راتوں پہ ہیں غالب تو سحر کیوں نہیں کرتے
یہ لوگ مسلسل ہیں جو اک خوف کے قیدی
اس خوف کی دیوار میں در کیوں نہیں کرتے
کیوں آپ اٹھاتے ہو اداسی کے یہ اسباب
شاموں کے غلاموں کو خبر کیوں نہیں کرتے
فقط باتیں اندھیروں کی ,محض قصّے اجالوں کے
چراغ آرزو لے کر نہ تم نکلے نہ ہم نکلے
کبھی انسان اکیلا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا
سر محفل کبھی بیٹھے بٹھائے کھو بھی سکتا ہے
مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی
نیا نیا عشق کرنے والو,ہمیں سے اس کا زیاں بھی پوچھو
بساط ہستی پہ ہم نے ہارا..کبھی سمندر کبھی ستارہ
Arosa Hya (12-20-2015)
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks