ظالم
جشن ہے ماتمِ امّید کا آؤ لوگو
مرگِ انبوہ کا تہوار مناؤ لوگو
عدم آباد کو آباد کیا ہے میں نے
تم کو دن رات سے آزاد کیا ہے میں نے
جلوۂ صبح سے کیا مانگتے ہو
بسترِ خواب سے کیا چاہتے ہو
ساری آنکھوں کو تہِ تیغ کیا ہے میں نے
سارے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا ہے میں نے
اب نہ لہکے گی کسی شاخ پہ پھولوں کی حنا
فصلِ گُل آئے گی نمرود کے انگار لیے
اب نہ برسات میں برسے گی گہر کی برکھا
ابر آئے گا خس و خار کے انبار لیے
میرا مسلک بھی نیا راہِ طریقت بھی نئی
میرے قانوں بھی نئے میری شریعت بھی نئی
اب فقیہانِ حرم دستِ صنم چومیں گے
سرو قد مٹی کے بونوں کے قدم چومیں گے
فرش پر آج درِ صدق و صفا بند ہوا
عرش پر آج ہر اِک بابِ دعا بند ہوا
٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote




Bookmarks