حُسن کو عشق کی تصویر بتاتے ہوئے لوگ
مر گئے زہر کی تاثیر بتاتے ہوئے لوگ
رات اک خواب سنایا تھا ہَوا کو میں نے
صبح سے پھرتے ہیں تعبیر بتاتے ہوئے لوگ
یادِ جاناں میں ہوئے اپنے ہی قدموں پہ نڈھال
زلف کو پاؤں کی زنجیر بتاتے ہوئے لوگ
ایک دن اپنی گواہی کے لئے ترسیں گے
اہلِ ہجرت کو پنہ گیر بتاتے ہوئے لوگ
روشنی اور ہَوا چھین رہے ہیں ہم سے
چاند سورج تری جاگیر بتاتے ہوئے لوگ
اب جو تاریخ نے پوچھا ہے تو چُپ سادھ گئے
سرِ محضر مری تحریر بتاتے ہوئے لوگ
خود کو یہ کون سمجھتے ہیں کبھی پوچھ سلیمؔ
مجھے غالبؔ تو تجھے میرؔ بتاتے ہوئے لوگ
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks