Quote Originally Posted by intelligent086 View Post

بجھنے لگ جائیں تو پھر شمعیں جلا دی جائیں

میری آنکھیں مرے دشمن کو لگا دی جائیں

بے ہنر لوگ کہاں حرف کی سچائی کہاں
اب کتابیں کسی دریا میں بہا دی جائیں

ان کی پہچان کا دکھ جاں سے گزرتا ہے
یہ شبیہیں سرِ آئینہ گنوا دی جائیں

اب بچھڑنے کا سلیقہ ہے نہ ملنے کا ہنر
عشق میں تہمتیں آئیں تو بھُلا دی جائیں

یا تو خورشید چمکتا رہے پیشانی میں
یا لکیریں مرے ماتھے کی مٹا دی جائیں

کتنی بھولی ہوئی باتیں ہمیں آج اُس کی سلیمؔ
یاد آئی ہیں تو اب اس کو بتا دی جائیں
٭٭٭






Nice Sharing.....
Thanks