انتہا کوئی تو ہو تیری طرف سے جاناں
منتظر تیرا کوئی شخص قیامت تک ہے
Printable View
انتہا کوئی تو ہو تیری طرف سے جاناں
منتظر تیرا کوئی شخص قیامت تک ہے
اپنی تنہائی سے پوچھوں گا اگر پوچھ سکا
کیا یہ سچ ہے کہ ہر اک دوست سہولت تک ہے
مر گئے لوگ یہاں سارے مگر اب بھی ندیم
کوئی زندہ ہے تو بس اس کی محبت تک ہے
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے
دعا کی چھاؤں میں کچھ پل گزارا کر لیا جائے
ہمارا مسئلہ ہے مشورے سے اب بہت آگے
کسی دن احتیاطاً استخارا کر لیا جائے
مرا مقصد یہاں رکنا نہیں بس اتنا سوچا ہے
سفر سے پیشتر اس کا نظارا کر لیا جائے
حوالے کر کے اپنا جسم اک دن تیز لہروں کے
پھر اس کے بعد دریا سے کنارا کر لیا جائے
ندیم اس شہر میں مانوس گلیاں بھی بہت سی ہیں
اور اب آئے ہیں تو ان کا نظارا کر لیا جائے
رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا
وہ جو اک شخص مجھے چھوڑ دیا کرتا تھا