مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے
Printable View
مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے
ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
نمو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی
وجود وہم بنا، مٹ گیا مگر پھر بھی
تمہارے پاس نہیں ہوں قیاس ہو کر بھی
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو
فقیر کیسے چھپے خوش لباس ہو کر بھی
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے
جانتا ہوں کہ ترا ساتھ ضرورت تک ہے
ایک کردار کہانی کے لیے میں بھی ہوں
اور صحرا بھی مری آخرت ہجرت تک ہے
تو نہیں ہوتا اگر کس نے یہاں رہنا تھا
دوست یہ گھر بھی فقط تیری سکونت تک ہے