وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت
Printable View
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت
کسی نے اپنے اندھیروں میں روشنی چاہی
کسی کا ذکر کیا چاند نے بھی رات بہت
وہ جس نے عین جوانی میں ہم کو مار دیا
ندیم اس سے جڑی تھیں توقعات بہت
تمہارے بعد خود کو دیکھنا ہے
کہ مجھ میں اور کتنا حوصلہ ہے
مکمل تجھ کو بھی کرنا نہیں ہے
تجھے لکھ کر ادھورا چھوڑنا ہے
کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں
جہاں انسان آ کر ڈوبتا ہے
نہ جانے کس پہ مشکل وقت آیا
کوئی خط میں ہتھیلی بھیجتا ہے
مجھے یکسر عطا کر دے خدایا
مری قسمت میں جو کچھ بھی لکھا ہے
محبت ہی خدا سے مانگتے ہیں
محبت ہی ہمارا مسئلہ ہے