میں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
میری زباں سے حال سنے گوش نقش پا
Printable View
میں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
میری زباں سے حال سنے گوش نقش پا
ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
ہر چند ترے ظلم کی کچھ حد نہیںظالم
پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں رکھا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی ہے ہو نہیں سکتا
اپنی آنکھوں میں کوندگئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر
واں سے تب سرکا ادہار دکھنے لگا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
دیکھاہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمانکی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں
نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ برا کہتے ہیں