چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
Printable View
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں
اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے
حضرت سائیں فرید اگر دیں ساتھ ہمارا
اب بھی ویراں تھل کو بسایا جا سکتا ہے
مجھ میں بھی شامل ہے اس مٹی کا عنصر
مجھ میں بھی اک پھول اگایا جا سکتا ہے
کچھ سخن مشورہ کروں گا میں
اس کی آنکھیں پڑھا کروں گا میں
لے کے آؤں گا خود کو ساحل پر
اور پھر جانے کیا کروں گا میں
زندگی پھر نئی نئی سی ہو
اب کوئی حادثہ کروں گا میں