کسے پکاروں یہاں کون چل کے آئے گا
یہاں پہ لوگ نظر آئے بھی تو آدھے سے
Printable View
کسے پکاروں یہاں کون چل کے آئے گا
یہاں پہ لوگ نظر آئے بھی تو آدھے سے
میں اس جگہ سے کہیں اور جا نہیں سکتا
بندھا ہوا ہوں مکمل کسی کے وعدے سے
کیوں ترے غم میں کسی اور کو شامل کر لوں
کس لیے روئے مرے ساتھ مرا آنگن بھی
ایک ویران ریاست کی طرح ہوں میں ندیم
فتح کر کے مجھے پچھتائے مرے دشمن بھی
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی
کیا ضروری ہے کسی مور کا ہونا بن میں
رقص کرتا ہے ترے دھیان میں تو تن من بھی
تیر، نیزے، ڈھال اور تلوار دے کر آ گیا
اپنا سب کچھ ہی سپہ سالار دے کر آ گیا
عین ممکن ہے وہ میرا نام تک رہنے نہ دے
میں اسے اپنے سبھی آثار دے کر آ گیا