کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے
Printable View
کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں
جہاں انسان آ کر ڈوبتا ہے
نہ جانے کس پہ مشکل وقت آیا
کوئی خط میں ہتھیلی بھیجتا ہے
مجھے یکسر عطا کر دے خدایا
مری قسمت میں جو کچھ بھی لکھا ہے
محبت ہی خدا سے مانگتے ہیں
محبت ہی ہمارا مسئلہ ہے
مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے
ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
نمو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی