جہاں بیٹھے ، صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے
Printable View
جہاں بیٹھے ، صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستا ہے
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو
عبید اﷲ تمہیں کیا ہو گیا ہے
عشوہ و غمزہ و رم بھول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکہ تھا کہ ہم بھول گئے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے