دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
Printable View
دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
زمین ہے نہ زماں نیند ہے نہ بیداری
وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے
سخن وروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن
سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
صرف گفتار سے زخموں کا رفو چاہتے ہیں
یہ سیاست ہے تو پھر کیا کہیں نادانی کو
کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے
جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو
اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا
اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو
بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس
اپنی ہی روح میں آئی ہوئی طغیانی کو
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
آج یوسف پہ اگر وقت یہ لائے ہو تو کیا
کل تمھیں تخت بھی دو گے اسی زندانی کو