اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا
Printable View
اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا
تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا
کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
بن عشق اسے کیونکر جانوں
جو عشق سراپا حال ہوا
اس وقت کا کوئی انت نہیں
یہ وقت تو ماہ و سال ہوا
وہی ایک خلش نہ ملنے کی
ہمیں ملتے دسواں سال ہوا
ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا
ہر آن تجلی ایک نئی
لکھ جانا میرا کمال ہوا
کس بات کو کیا کہتا تھا میں
تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا
تم کیسی باتیں کرتے ہو
اے یار صغیر ملال ہوا