جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
Printable View
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
آئین جواں مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا ، تن آسانوں کے کام آیا
دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!
مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم
عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام ، میں بھی ابھی ناتمام
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
منزل راہرواں دور بھی ، دشوار بھی ہےکوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے