پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے
شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی
Printable View
پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے
شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی
ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما*ں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا