اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
Printable View
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
فخر ہم پیشہ گہ دیدہ وراں جانے دو
داغ ہم پیشہ گیہ ننگ ہنر تو دیکھو
دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ
عقل یہ کہتی ہے کہ توہّم پر جینا نادانی ہے
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں ، سایہ نہیں ہوں میں
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہُنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رُک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
بن عشق اسے کیونکر جانوں
جو عشق سراپا حال ہوا
وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے