ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے
اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے
Printable View
ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے
اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے
لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں
لہجوں میں نرم نر م شرافت، غزل سے ہے
اظہار کے نئے نئے اسلوب دے دیئے
تحریر و گفتگو میں نفاست غزل سے ہے
یہ سادگی ، یہ نغمگی، دل کی زبان میں
وابستہ فکر و فن کی زیارت غزل سے ہے
شعروں میں صوفیوں کی طریقت کا نور ہے
اُردو زباں میں اتنی طہارت غزل سے ہے
اللہ نے نواز دیا ہے تو خوش رہو
تم کیا سمجھ رہے ہو، یہ شہرت غزل سے ہے
یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر ہمارا سلام ہے ساقی
آج تو اذن عام ہےساقی
رات رندوں کے نام ہے ساقی
میرے ساغر میں رات اُتری ہے
چاند تاروں کا جام ہے ساقی
ایک آئے گا،ایک جائے گا
مے کدے کا نظام ہے ساقی