یہ غزل کِس کی ہے اس مطلع کو پڑھ کر دیکھو
چاند کی چودھویں تاریخ ہے ، اوپر دیکھو
Printable View
یہ غزل کِس کی ہے اس مطلع کو پڑھ کر دیکھو
چاند کی چودھویں تاریخ ہے ، اوپر دیکھو
آج کمرے میں نہیں بیٹھنے والا موسم
برف کھڑکی سے نہیں ،گھر سے نکل کر دیکھو
رات سوئی ہوئی رعنائیوں نے مجھ سے کہا
ہم کو ہاتھوں سے نہیں، آنکھوں سے چھُو کر دیکھو
چاند کی زلفیں ہیں، چہرہ ہے، قد و قامت ہے
آسمانوں سے حویلی میں اُتر کر دیکھو
ہم غریبوں سے کبھی ٹوٹ کے ملنے آؤ
کیا بکھر نے میں مزا ہے یہ بکھر کر دیکھو
آنکھوں میں رہا، دل میں اُتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھُول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مر ا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی مُحبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھُولوں میں چھُپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا