شباب آتے ہی اسے کاش موت بھی آتی
ابھارتا ہے اسی سن میں ولولہ دل کا
Printable View
شباب آتے ہی اسے کاش موت بھی آتی
ابھارتا ہے اسی سن میں ولولہ دل کا
جو منصفی ہے جہاں میں تو منصفی تیری
اگر معاملہ ہے تو معاملہ دل کا
ملی بھی ہے کبھی عاشقی کی داد دنیا میں
ہوا بھی ہے کبھی کم بخت فیصلہ دل کا
ہماری آنکھ میں بھی اشک گرم ایسے ہیں
کہ جن کے آگے بھرے پانی آبلہ دل کا
اگر چہ جان پہ بن بن گئی محبت میں
کسی کے منہ پر نہ رکھا غلہ دل کا
ہوا نہ اس سے کوئی اور کانوں کان خبر
الگ الگ ہی رہا سب معاملہ دل کا
ازل سے تا بہ ابد عشق ہے اس کے لئے
ترے مٹائے مٹے گا نہ سلسلہ دل کا
کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت وہی گلہ دل کا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا